اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے زرمبادلہ کے ذخائر صرف آٹھ ہفتوں میں تقریباً ایک ارب ڈالر کم ہو گئے ہیں، یعنی 13 دسمبر سے 7 فروری کے درمیان۔ یہ کمی اس کے باوجود ہوئی کہ دسمبر میں کرنٹ اکاؤنٹ ہاف بلین ڈالر کے سرپلس میں تھا اور جنوری کے لیے بھی معمولی سرپلس کی توقع کی جا رہی تھی۔

یہ صورتحال تشویشناک اشارے دے رہی ہے، مالیاتی کھاتے (فنانشل اکاؤنٹ) سے ہونے والی ادائیگیاں—جو بنیادی طور پر حکومت کے غیر ملکی قرضوں کی سروسنگ پر مشتمل ہیں—کرنٹ اکاؤنٹ کے ذریعے پوری کی جا رہی ہیں، جس کی وجہ سے جنوری 2025 کے لیے مجموعی ادائیگیوں کا توازن منفی ہوگیا ہے۔

یہ نئے کیلنڈر سال کا ایک تشویشناک آغاز ہے۔ مالیاتی کھاتا، جس میں غیر ملکی قرضے اور سرمایہ کاری شامل ہوتی ہیں، سکڑتا جا رہا ہے۔ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو اسٹیٹ بینک کو محدود پالیسی آپشنز کے ساتھ کرنٹ اکاؤنٹ کا سرپلس برقرار رکھنا پڑے گا، جن میں پاکستانی روپے کی قدر میں مزید کمی اور شرح سود کو نسبتاً زیادہ رکھنا شامل ہے۔ اگر ذخائر کی کمی تیز ہوگئی تو حکومت درآمدی پابندیاں دوبارہ نافذ کرنے پر مجبور ہو سکتی ہے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے گزشتہ ایک سال میں اقتصادی استحکام اور حیرت انگیز بحالی کے دعوے غیر ملکی قرض دہندگان اور سرمایہ کاروں کے لیے بے وزن دکھائی دیتے ہیں۔ مالیاتی کھاتے کی رپورٹ برائے مالی سال 2025 کی پہلی ششماہی ایک تاریک تصویر پیش کر رہی ہے۔

جولائی سے دسمبر 2024 کے دوران سرپلس کم ہو کر محض 544 ملین ڈالر رہ گیا ہے، جو پچھلے سال کے اسی عرصے میں ریکارڈ کیے گئے 5 ارب ڈالر کے سرپلس کا ایک معمولی حصہ ہے۔ حکومت کو دیے گئے قرضے منفی میں جا چکے ہیں، جو پچھلے سال کے 2 ارب ڈالر کے اضافے کے برعکس 353 ملین ڈالر کی کمی ظاہر کر رہے ہیں۔

غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) اگرچہ مالی سال25 کی پہلی ششماہی میں 27 فیصد اضافے کے ساتھ 1.3 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے، مگر یہ سابقہ دعوئوں کے مقابلے میں بہت کم ہے، جن میں 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے امکانات ظاہر کیے گئے تھے۔

صورتحال کو مزید خراب کرتے ہوئے، غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کے اسٹاک مارکیٹ میں مسلسل فروخت کر رہے ہیں، حالانکہ مقامی انڈیکس ریکارڈ سطح تک پہنچ چکے ہیں۔ اسٹاک کی قیمتیں دوگنا یا تین گنا ہو چکی ہیں، مگر غیر ملکی سرمایہ کار اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑی تعداد میں نکل رہے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ نگران حکومت کے دور میں مالیاتی آمدن موجودہ حکومت کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط تھی۔ منطقی طور پر، کم ہوتی مہنگائی، شرح سود میں کمی، زرمبادلہ کے بڑھتے ہوئے ذخائر، اور روپے کی قدر میں استحکام جیسے عوامل کے پیش نظر، غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، جو گہرے مسائل کی نشاندہی کرتی ہے،جیسے سیاسی عدم استحکام اور کمزور اقتصادی اعتماد۔

آئی ایم ایف کے آئندہ جائزے میں کوئی فوری رکاوٹیں درپیش نہیں ہیں، کیونکہ تمام اہداف پورے کیے جا رہے ہیں، اور حکومت فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی ار) کی محصولات میں کمی جیسے ضمنی اہداف کے لیے چھوٹ کی توقع رکھتی ہے۔ تاہم، اصل مسئلہ بیرونی مالیاتی خسارے میں اضافے کا ہے۔

یاد رہے کہ جون 2023 میں، پاکستان دیوالیہ ہونے کے دہانے پر تھا جب آئی ایم ایف نے اپنے جائزے میں مجموعی مالیاتی خسارے کی وجہ سے تاخیر کی۔ آخری لمحے میں بائیڈن انتظامیہ کی مداخلت سے ایک اسٹینڈ بائی سہولت (ایس بی اے) حاصل ہوئی، جس نے بحران کو ٹالا۔ یہی مسئلہ جاری پروگرام کی بات چیت میں دوبارہ سامنے آیا، جو ایک بار پھر امریکی مداخلت کے ذریعے حل ہوا۔

یہ خسارہ اب بھی برقرار ہے، اور اس کا تخمینہ تقریباً 3.5 ارب ڈالر لگایا جا رہا ہے۔ حال ہی میں، سعودی عرب نے 100 ملین ڈالر ماہانہ کے موخر ادائیگیوں پر تیل کی سہولت میں توسیع کی ہے، اور پاکستان نے 300 ملین ڈالر کا ایک اور تجارتی قرض انتہائی مہنگی شرح سود پر حاصل کیا ہے۔

اس کے علاوہ، دو طرفہ شراکت داروں یا عالمی مالیاتی منڈیوں سے کوئی بڑی رقم نہیں آ رہی—جس میں پانڈا بانڈ بھی شامل ہے۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے، حکومت کو مزید مہنگے تجارتی قرضے لینا پڑ سکتے ہیں، جن کی ادائیگی مجموعی مالیاتی توازن پر مزید دباؤ ڈالے گی۔

اب سب سے بڑا سوال یہ ہے: کیا ٹرمپ انتظامیہ اپنے پیشرو کی طرح پاکستان کے لیے نرم رویہ اختیار کرے گی؟ امکانات کم نظر آتے ہیں، اور اب تک اس قسم کی کسی مدد کے آثار بھی دکھائی نہیں دے رہے۔

یہ سخت ہوتی ہوئی اقتصادی صورتحال اس امر کو مزید واضح کرتی ہے کہ پاکستان کو مارکیٹ پر مبنی غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کی اشد ضرورت ہے۔ تاہم، مختلف شعبوں میں پیداواری صلاحیت کی سطح کمزور ہے۔ کاروبار پہلے سے موجود صنعتی یونٹس کو چلانے میں مشکلات کا شکار ہیں، توسیع یا نئے منصوبے شروع کرنا تو دور کی بات ہے۔

نجی شعبہ کئی رکاوٹوں سے نبرد آزما ہے: بلند شرح ٹیکس سرمایہ کاری کو روکے ہوئے ہے، توانائی کے بڑھتے ہوئے اخراجات مسابقت کو ختم کر رہے ہیں، اور بیرونی مالیاتی دباؤ سرمایہ کاری کے مواقع کو محدود کر رہے ہیں۔ مجموعی طور پر، موجودہ ماحول سرمایہ کاری کے لیے سازگار نہیں ہے۔

یہ تمام عوامل ترقی کی صلاحیت کو محدود کر رہے ہیں۔ مالیاتی حکمت عملی کے محاذ پر کوئی گنجائش نہیں بچی، اور حکومت کو بیرونی عدم توازن سے بچنے کے لیے مالیاتی سرپلس برقرار رکھنا ہوگا—یعنی معیشت کم ترقی، کم روزگار کے ایک ایسے چکر میں پھنس گئی ہے جس سے نکلنے کا کوئی واضح راستہ نظر نہیں آتا۔ اگر آپ اسے استحکام کا نام دینا چاہتے ہیں تو دے سکتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ جمود ہے، جس کا کوئی واضح حل نہیں دکھائی دیتا۔ واحد مثبت پہلو—یا یوں کہیے کہ خوش قسمتی—یہ ہے کہ پاکستان اب تک ڈیفالٹ سے بچنے میں کامیاب رہا ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف