پاور ڈویژن وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے تفویض کردہ ایک درجن سے زائد ترجیحی کاموں کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے، جس کا مقصد ملک کے خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے پاور سیکٹر میں بہتری لانا ہے جس کا گردشی قرضہ اب 2.5 ٹریلین روپے سے زیادہ ہے۔
باخبر ذرائع نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ پاور ڈویژن نے تین چینی درآمدی کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں—ساہیوال پاور پلانٹ، پورٹ قاسم پاور پلانٹ اور حب پاور پلانٹ—کو تھر کول پر منتقل کرنے کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ پیشرفت نہیں کی۔
لکی کول پاور پلانٹ کے لیے تھر کول کی دستیابی اور درآمدی کوئلے پر مبنی جامشورو پاور پلانٹ کی منتقلی کے معاملات بھی تاحال کسی پیشرفت کے بغیر ہیں۔
ٹرانسمیشن کی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے وزارتِ منصوبہ بندی کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ مالی سال 2025-26 کے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں بیٹری انرجی اسٹوریج سسٹم (بی ای ایس ایس) منصوبے کی شمولیت کو یقینی بنائے۔ پاور ڈویژن اس منصوبے کو اپنی پی ایس ڈی پی مختص رقم میں شامل کررہا ہے۔
ذرائع کے مطابق وزیرِاعظم نے ہدایت دی تھی کہ موجودہ فعال یا نیم فعال جینکوز (بشمول نندی پور اور گڈو 747) کی نجکاری کے عمل کو تیز کیا جائے، جس کی آخری تاریخ یکم جنوری 2026 مقرر کی گئی ہے۔ تاہم، اس معاملے پر پیش رفت نہ ہونے کے برابر ہے۔
ذرائع کے مطابق، ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) میں نجی شراکت داری سے متعلق کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں فیصلہ کیا گیا کہ پہلے مرحلے میں آئیسکو، گیپکو اور فیسکو کو مکمل نجکاری کیلئے پیش کیا جائے گا جب کہ دوسرے مرحلے میں لیسکو، میپکو اور ہیزکو کی مکمل نجکاری کی جائے گی۔
مزید برآں، سیپکو، حیسکو اور پیسکو کو طویل المدتی مراعاتی معاہدے (کنسیشن ایگریمنٹ) کے تحت نجی شعبے کے حوالے کرنے کی پیشکش کی جائے گی۔
ٹیسکو اور کیسکو کو ان کی مخصوص صورتحال کے پیش نظر فی الحال سرکاری کنٹرول میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ ہدف یکم جنوری 2026 تک حاصل کرنا ہوگا۔
ذرائع کے مطابق پاور ڈویژن اور نجکاری ڈویژن اس ہدف کے حصول کے لیے کام کررہے ہیں تاہم فنانشل ایڈوائزرز (ایف ایز) کی حتمی منظوری ابھی باقی ہے۔
6 فروری 2025 کو وزارت خزانہ میں عالمی بینک مشن کے ساتھ ایک اجلاس منعقد ہوا، جس میں ڈسکوز میں نجی شراکت داری کے لیے مالی معاونت پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ عالمی بینک اس حوالے سے حکومت پاکستان کو مالی امداد فراہم کر رہا ہے۔
وزیراعظم نے پاور ڈویژن کو 31 دسمبر 2024 تک ڈیڈ اثاثوں کی شفاف نیلامی کے لیے ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت دی تھی، جس میں براہ راست میڈیا کوریج بھی شامل ہو۔ تاہم، یہ ہدف تاحال مکمل نہیں ہو سکا۔
پاور ڈویژن کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ 31 اگست 2024 تک جنکوز ملازمین کے ٹرانزیشن پلان پر عملدرآمد یقینی بنائے جس میں تکنیکی عملے کو ضرورت کے مطابق ڈسکوز میں ضم کرنا اور باقی ملازمین کے لیے مردہ اثاثوں کی فروخت کے ذریعے رضاکارانہ علیحدگی اسکیم شامل تھی۔ تاہم، یہ معاملہ تاحال حل نہیں ہوسکا۔ واپڈا ہائیڈرو الیکٹرک یونین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ جنکوز کے ملازمین کو این ٹی ڈی سی میں ایڈجسٹ کیا جائے۔
وزیراعظم نے پاورڈویژن کو یہ بھی ہدایت کی تھی کہ 2400 میگاواٹ کے اسٹریٹجک مختص میں سے صرف ایک 600 ایکس میگاواٹ کا سولر پاور پلانٹ سعودی عرب کے ساتھ سرمایہ کاری کیلئے لیا جائے گا۔ اس فیصلے کے مطابق مستقبل کے بجلی پیداوار میں توسیعی منصوبے پر نظرِثانی کرکے اسے 31 جولائی 2024 تک حتمی شکل دی جانی تھی، تاہم اس معاملے میں پیش رفت سست روی کا شکار ہے۔
پاور ڈویژن کے نمائندے نے حال ہی میں وزارت تجارت میں ہونے والے ایک اجلاس میں بتایا کہ 600 میگاواٹ کا شمسی توانائی کا منصوبہ سعودی عرب کی کمپنی کو مختص کیا گیا ہے۔
وزیرِاعظم نے اصولی طور پر ایک عبوری منصوبے کی منظوری دی تھی، جس کے تحت کیپٹیو پاور یونٹس کو بتدریج نیشنل گرڈ پر منتقل کرنا تھا، جس کا جائزہ ڈسکوز نے لینا تھا اور عملدرآمد 31 جولائی 2024 تک مکمل ہونا تھا، تاہم اس فیصلے کو آئی ایم ایف کی منظوری کے بعد ایک مختلف طریقہ کار کے ذریعے نافذ کیا گیا۔ اس حوالے سے کیپٹیو پاور پلانٹس کے لیے گیس کے نرخ 3,000 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو سے بڑھا کر 3,500 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کر دیے گئے ہیں، علاوہ ازیں 5 فیصد لیوی بھی عائد کی گئی تاکہ سی پی پیز کو نیشنل گرڈ پر منتقل ہونے پر مجبور کیا جاسکے۔
مسابقتی بجلی مارکیٹ کے فعال کرنے، وہیلنگ چارجز کے تعین اور کمرشل کوڈ کی منظوری کا اہم ہدف ستمبر 2024 کی مقررہ مدت گزرنے کے باوجود تاحال مکمل نہیں ہو سکا۔
ذرائع کے مطابق، وہیلنگ چارجز کے تعین اور اس کے طریقہ کار (جس میں تدریجی کمی، سالانہ حد اور نظام میں اضافی گنجائش کی دستیابی شامل ہے) سے متعلق کمیٹی کی سفارشات کو حتمی شکل دینے اور وفاقی کابینہ سے 30 ستمبر 2024 تک منظوری لینے کا ہدف بھی حاصل نہیں کیا جا سکا، جس کے باعث نجی شعبے کی سستی بجلی کے حصول کیلئے بی ٹو بی معاہدے کرنے کی کوششیں تاحال نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکیں۔
بلوچستان میں زرعی ٹیوب ویلز کی سولرائزیشن کیلئے روڈمیپ کو حتمی شکل دینے اور باقی ماندہ ٹیوب ویلز کے حوالے سے تجاویز تیار کرنے کے لیے بلوچستان کے وزیر توانائی، وزیر تجارت اور سیکریٹری توانائی کو حکومت بلوچستان سے مشاورت کرنی تھی، جس کی آخری تاریخ اگست 2024 مقرر کی گئی تھی۔ حکومت نے بلوچستان میں بجلی سے چلنے والے ٹیوب ویلز کو سولرائز کردیا ہے۔
تاہم نیٹ میٹرنگ کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوا کیونکہ پاور ڈویژن بائی بیک ریٹ کو موجودہ 20 روپے فی یونٹ سے کم کرکے 10 روپے فی یونٹ کرنا چاہتا ہے۔
آزاد جموں و کشمیر اور سابقہ فاٹا سے ریکوری کا مسئلہ بدستور حل طلب ہے۔ وزیر دفاع کی سربراہی میں ایک کمیٹی نے اے جے کے اور خیبر پختونخوا حکومتوں کے ساتھ کم ریکوری/ادائیگی کے معاملات پر غور کیا تھا اور ان مسائل کے خوش اسلوبی سے حل کے لیے 31 جولائی 2024 تک سفارشات پیش کرنی تھیں۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments