یہ حالیہ کمی، جس کے تحت پاکستان کی مہنگائی کی شرح مئی 2023 میں حیران کن 38 فیصد سے کم ہو کر جنوری 2024 میں نو سال کی کم ترین سطح 2.4 فیصد پر آ گئی ہے، ایک کامیابی کے طور پر پیش کی جا رہی ہے۔ لیکن یہ کامیابی کس کی ہے؟ کیا یہ ان پالیسی سازوں کی جیت ہے جو ائیر کنڈیشنڈ بورڈ رومز میں چارٹ لہرا رہے ہیں، یا اس عام پاکستانی کی جو ایک وقت کے کھانے کے لیے بھی جدوجہد کر رہا ہے؟ اگر اقتصادی اصطلاحات کی دنیا سے باہر نکل کر زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار صرف آدھی کہانی بیان کرتے ہیں۔ مہنگائی میں کمی کا سطحی جشن اس سنگین حقیقت کو نظر انداز کر دیتا ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں خریداری کی طاقت اس حد تک برباد ہو چکی ہے کہ اس نقصان کی تلافی میں ایک دہائی لگ سکتی ہے۔
بہت سے لوگ مہنگائی اور قیمتوں کی سطح کے درمیان بنیادی فرق کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں۔ مہنگائی میں کمی کا مطلب یہ نہیں کہ قیمتیں گر رہی ہیں، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ پہلے کی نسبت کم رفتار سے بڑھ رہی ہیں۔ ایک عام پاکستانی، جو پہلے ہی سالوں سے بڑھتی ہوئی قیمتوں کی مار جھیل رہا ہے، آج بھی بنیادی اشیاء کو انتہائی مہنگا محسوس کرتا ہے۔ اور پھر بھی کچھ حلقوں میں مہنگائی میں کمی کی بات ہو رہی ہے، جیسے کہ قیمتوں میں کمی کوئی جادوئی حل ہو۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ افراطِ زر عام مزدور کا دشمن ہے۔ پاکستان جیسی نازک معیشت میں قیمتوں میں کمی کا مطلب کاروباری منافع میں کمی، اجرتوں میں جمود، روزگار میں کٹوتیاں اور بالآخر کساد بازاری ہوگا۔ کیا ہم زیادہ قیمتوں کے بدلے بڑے پیمانے پر بے روزگاری کا سودا کرنا چاہتے ہیں؟ ایک ایسی معیشت جہاں اجرتیں بھی گریں اور مواقع بھی ختم ہوں؟
حقیقی اجرتیں، جو کسی مزدور کی معاشی فلاح و بہبود کا اصل پیمانہ ہیں، اور بھی زیادہ تاریک تصویر پیش کرتی ہیں۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے مطابق، یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کی حقیقی آمدنی، جو یہاں کم از کم اجرت کا متبادل سمجھی جا رہی ہے، جولائی 2019 سے مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ بظاہر اجرت میں اضافہ ہوا ہے، لیکن مہنگائی نے مزدوروں کی قوتِ خرید کو بے رحمی سے ختم کر دیا ہے۔ نقصان اس قدر شدید ہے کہ 2017 کی سطح پر حقیقی اجرتوں کو بحال کرنے کے لیے اگلے ڈھائی سال تک یومیہ اجرتوں میں سالانہ 20 فیصد اضافہ ضروری ہوگا۔ لیکن کیا یہ ممکن بھی ہے؟
پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی میں اجرتوں کی سب سے زیادہ اوسط سالانہ شرحِ نمو محض 12 فیصد رہی ہے۔ یہ توقع کرنا کہ اجرتیں تقریباً دوگنا رفتار سے بڑھیں گی، اقتصادی منطق کے خلاف ہے۔ حتیٰ کہ اگر حکومت یا آجر معجزانہ طور پر اس قدر اجرتوں میں اضافے پر متفق بھی ہو جائیں، تو اس کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔ ایک ویج- پرائس اسپائرل جو مہنگائی کو دوبارہ بھڑکا دے گی، اور کسی بھی برائے نام فائدے کو بے معنی بنا دے گی۔ اور ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کو مستقل طور پر ادائیگیوں کے توازن کے بحران کا سامنا رہتا ہے، جو تاریخی طور پر اس وقت شدت اختیار کرتا ہے جب جی ڈی پی کی شرحِ نمو 4.5 فیصد سے تجاوز کر جاتی ہے۔ اگر برائے نام اجرتوں میں اضافہ اقتصادی پیداوار میں اضافے کے بغیر ہوا، تو ملک ایک بار پھر معیشت کے حد سے زیادہ گرم ہونے، بیرونی قرضوں کے بڑھنے اور ایک اور معاشی بحران کے دائرے میں پھنس جائے گا۔
تو پھر پاکستان کے مزدور طبقے کے لیے راستہ کیا بچتا ہے؟ پالیسی سازوں کے پاس یہ عیاشی نہیں کہ وہ ایک گولی سے ہونے والے زخم پر پلاسٹر لگانے کی کوشش کریں۔ محض اجرتیں بڑھانا مسئلے کا حل نہیں۔ اصل مسئلہ، جسے اب تک کسی بھی سیاسی رہنما نے جرات کے ساتھ حل کرنے کی کوشش نہیں کی، پاکستان کی نہایت کمزور پیداواری صلاحیت ہے۔ یہ محض زیادہ پیداوار دینے کی بات نہیں، بلکہ زیادہ مؤثر طریقے سے پیداوار دینے کی ہے، یعنی بہتر ٹیکنالوجی، بہتر تربیت یافتہ افرادی قوت، اور زیادہ مستحکم صنعتی ڈھانچے کے ساتھ۔ جب تک پیداواری صلاحیت میں بہتری نہیں آتی، اجرتوں میں اضافہ صرف مہنگائی کا دھوکہ ہی ہوگا۔
پاکستان کو ایک تلخ حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا: اب محض اقتصادی ترقی کو فیصد میں ناپنے کا وقت گزر چکا ہے۔ اصل چیلنج یہ ہے کہ اس ترقی کو حقیقی خریداری کی قوت میں کیسے بدلا جائے۔ اگر اجرتوں میں اضافہ کرنا ہے اور ساتھ ہی مہنگائی کو قابو میں رکھنا ہے، تو اس کے لیے مزدوروں کو زیادہ کارآمد، صنعتوں کو زیادہ مسابقتی اور کاروباروں کو زیادہ مستحکم بنانا ہوگا۔ جب تک یہ نہیں ہوتا، اقتصادی بحالی کی باتیں صرف باتیں ہی رہیں گی۔ کیونکہ جب تک عام آدمی کے لیے حالات نہیں بدلتے، سرکاری رپورٹس میں دکھائے گئے اعداد و شمار کسی کام کے نہیں۔
Comments