نجکاری کمیشن (پی سی) نے کہا ہے کہ وہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی فروخت کی دوسری کوشش کے لیے ’مکمل طور پر تیار‘ ہے، جس میں ’متعدد واپس آنے والے بولی دہندگان اور فریقین اس عمل میں حصہ لے رہے ہیں‘۔
کمیشن نے یہ بات پیر کو فاروق ستار کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کے چھٹے اجلاس میں بتائی۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی کو پی آئی اے کی نجکاری کے مختلف پہلوؤں پر بریفنگ دی گئی اور چیئرمین نجکاری کمیشن کی جانب سے بتایا گیا کہ پی آئی اے کی نجکاری کی دوسری کوشش مکمل طور پر تیار ہے، اس عمل میں متعدد ریٹرننگ بولی دہندگان اور فریقین حصہ لے رہے ہیں۔
گزشتہ سال اکتوبر میں حکومت کی جانب سے قومی ایئرلائن کی نجکاری کا منصوبہ اس وقت ناکام ہو گیا تھا جب واحد بولی لگانے والے بلیو ورلڈ سٹی کنسورشیم نے 85.03 ارب روپے کے پی سی کی کم از کم توقعات پر پورا اترنے سے انکار کر دیا تھا اور پی آئی اے میں 60 فیصد حصص کے لیے 10 ارب روپے کی پیشکش پر قائم رہے تھے۔
حکومت اب پی آئی اے کی فروخت کے لئے ایک نیا عمل شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
پیر کی میٹنگ میں بتایا گیا کہ بولی دہندگان نے نئے طیاروں کی شمولیت اور بیڑے کی توسیع پر حکومت کی طرف سے عائد 18 فیصد جی ایس ٹی (گڈز اینڈ سروسز ٹیکس) کو معاف کرنے کی سفارش کی تھی۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ ٹیکس ختم کرنے سے نئے طیاروں کے حصول میں سہولت ملے گی اور ہوا بازی کی صنعت کی ترقی میں مدد ملے گی۔
پی آئی اے کے واجبات 45 ارب روپے ہیں جن میں؛ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے واجبات کی مد میں 26 ارب روپے، سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) پر واجب الادا 10 ارب روپے اور بقیہ رقم پنشن واجبات پر مشتمل ہے۔
حکومت نے یہ خدشات بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے سامنے پیش کیے اور آئی ایم ایف نے اتفاق کیا کہ اگر پی آئی اے کی نجکاری کی جاتی ہے تو نئے طیاروں میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے 18 فیصد جی ایس ٹی ختم کیا جاسکتا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ واجب الادا واجبات کو نمٹانے کے لئے ایک میکانزم تیار کیا جائے گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ مالی بوجھ ممکنہ سرمایہ کاروں کے لئے رکاوٹ نہ بنے۔
کمیٹی کو مزید بتایا گیا کہ غیر اہم اثاثے پی آئی اے کی بولی کے عمل کا حصہ نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت ان اثاثوں کے لئے ایک علیحدہ پالیسی تشکیل دے رہی ہے، جس کے لئے پہلے ہی کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کی جا چکی ہیں۔ کنسلٹنٹ نے کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کو 2 سے 3 آپشنز تجویز کیے ہیں۔ کابینہ کمیٹی ان میں سے کسی ایک آپشن کو اپنائے گی اور غیر اہم اثاثوں کے بارے میں پالیسی جاری کرے گی۔
گزشتہ ماہ قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کے پانچویں اجلاس میں بتایا گیا تھا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کمپنی لمیٹڈ (پی آئی اے سی ایل) کے 45 ارب روپے کے منفی ایکویٹی کی بے باقی پر اتفاق کیا ہے۔
نجکاری کمیشن (ترمیمی) بل
اجلاس کے دوران کمیٹی نے نجکاری کمیشن (ترمیمی) بل 2024 (حکومتی بل) پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
تفصیلات کے مطابق کمیٹی نے شق 4، سیکشن 7(4) پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ وزارت قانون واضح کرے کہ کیا ایسی کوئی مثال موجود ہے جہاں وزیراعظم کو کابینہ کے بجائے نجکاری کے فیصلے کرنے کا اختیار دیا گیا ہو۔
کمیٹی نے وزارت قانون کو آئندہ اجلاس میں متعلقہ تفصیلات پیش کرنے کی ہدایت کی۔ اس کے بعد کمیٹی نے نجکاری کمیشن (ترمیمی) بل 2024 (سرکاری بل) کو آئندہ اجلاس تک ملتوی کردیا۔
Comments