پاکستان میں ٹیکس نیٹ کو وسعت دینا ہمیشہ سے ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔ براہِ راست اور بالواسطہ ٹیکس کی شرحیں بڑھ رہی ہیں، تاہم ٹیکس وصولی کا قومی جی ڈی پی کے تناسب سے اضافہ متناسب طور پر نہیں ہو رہا۔

مسئلہ یہ ہے کہ جیسے جیسے ٹیکس کی شرحیں بڑھتی ہیں، ٹیکس چوری کا رجحان بھی بڑھ جاتا ہے اور رجسٹرڈ کاروباری اداروں کے لیے یکساں مواقع سکڑتے جاتے ہیں۔ حکومت کو اپنی حکمت عملی پر نظرِ ثانی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دستاویزی شعبے کے لیے ٹیکس کی ادائیگی کی صلاحیت تیزی سے کم ہو رہی ہے اور ٹیکس کی مزید شرح میں اضافہ الٹا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ ٹیکس سال 2024 میں 5.9 ملین اداروں (زیادہ تر افراد) نے ٹیکس ریٹرن جمع کرائے، جو کہ 2023 میں 6.8 ملین سے کم ہے، حالانکہ امکانات 15 ملین فائلرز کے لیے موجود تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تقریباً ایک تہائی ممکنہ ٹیکس دہندگان یا تو ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کر رہے یا اپنی آمدنی پر ٹیکس ادا نہیں کر رہے، جبکہ جو لوگ فائل کر رہے ہیں ان کی تعداد میں بھی معمولی کمی واقع ہوئی ہے، جس کی ممکنہ وجہ ٹیکس کی بڑھتی ہوئی شرحیں ہو سکتی ہیں۔

جو لوگ ٹیکس فائل کر رہے ہیں، ان میں سے تقریباً نصف نے اپنی قابلِ ٹیکس آمدنی صفر ظاہر کی۔ صرف 8,000 افراد نے 50 ملین روپے (4.1 ملین روپے ماہانہ) سے زائد کی قابلِ ٹیکس آمدنی ظاہر کی، اور 4,000 سے بھی کم افراد نے 100 ملین روپے سے زائد آمدنی ظاہر کی۔

یہ اعداد و شمار کسی طور پر معقول معلوم نہیں ہوتے۔ ایک تہائی ممکنہ ٹیکس دہندگان ہی ٹیکس فائل کر رہے ہیں، ان میں سے نصف صفر آمدنی ظاہر کرتے ہیں، اور 250 ملین کی آبادی میں صرف 12 افراد ایسے ہیں جو سالانہ 10 ارب روپے (35 ملین ڈالر) سے زیادہ کما رہے ہیں۔ یہ واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ افراد اور کاروباری اداروں کی ایک بڑی اکثریت ٹیکس چوری کر رہی ہے۔

اس کے باوجود، حکومت کی حکمت عملی یہ رہی ہے کہ ٹیکس وصولی میں اضافے کے لیے مزید شرحوں میں اضافہ کیا جائے، جبکہ ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کے اقدامات محض باتوں حد تک ہی محدود رہے ہیں۔

کارپوریشنز 29 فیصد انکم ٹیکس ادا کر رہی ہیں، اس کے ساتھ 10 فیصد سپر ٹیکس بھی عائد ہے۔ اس کے علاوہ متعدد دیگر ٹیکس بھی لاگو ہیں۔ جب شیئر ہولڈرز کو منافع تقسیم کیا جاتا ہے تو وہ مزید 15 فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں، جس سے مؤثر ٹیکس کی شرح 60 فیصد سے تجاوز کر جاتی ہے۔

تنخواہ دار افراد کے لیے بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں ہے، جہاں سب سے زیادہ ٹیکس سلیب کی مؤثر شرح 38.5 فیصد ہے، جبکہ غیر تنخواہ دار افراد کے لیے یہ 48 فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ شرحیں دنیا بھر میں سب سے زیادہ شمار کی جاتی ہیں۔ وہ معیشتیں جہاں زیادہ ٹیکس شرحیں نافذ ہیں، وہاں شہریوں کو اعلیٰ معیار کی سماجی خدمات جیسے کہ صحت، تعلیم، بہتر ماحول اور سیکیورٹی فراہم کی جاتی ہیں۔

تاہم، پاکستان بنیادی خدمات کی فراہمی میں سب سے نیچے ہے۔ مزید برآں، وہ ممالک جہاں ٹیکس کی شرحیں زیادہ ہیں، وہاں ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب 30 فیصد سے زائد ہوتا ہے، جبکہ پاکستان میں یہ 13 فیصد سے بھی کم ہے، جس میں غیر ٹیکس آمدنی بھی شامل ہے۔

یہ اعداد و شمار واضح طور پر بتاتے ہیں کہ سماجی معاہدہ ٹوٹ چکا ہے۔ ٹیکس دہندگان کو ان کے دیے گئے ٹیکس کے بدلے میں کچھ نہیں ملتا، جس سے ٹیکس چوری ایک واضح انتخاب بن جاتی ہے۔ جو لوگ ٹیکس نہیں دیتے، وہ ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جی ایس ٹی 18 فیصد ہے، جو دنیا میں سب سے زیادہ شرحوں میں شامل ہے، جس کے نتیجے میں ٹیکس چوری کرنے والے کاروبار کو ٹیکس ادا کرنے والوں کے مقابلے میں لاگت کا بڑا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔

یقیناً، اس سے باضابطہ کاروباری اداروں کی ترقی کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، جبکہ غیر دستاویزی شعبہ ایک مخصوص حد سے آگے بڑھنے سے قاصر رہتا ہے کیونکہ اس سے آگے بڑھنے کے لیے باضابطہ رجسٹریشن ضروری ہوتی ہے۔ یہ جزوی طور پر اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ پاکستان میں کاروباری ادارے کیوں ترقی نہیں کر پاتے۔

اس کے علاوہ، ٹیکس چوری کے ذریعے اکٹھی کی گئی دولت عام طور پر غیر پیداواری شعبوں جیسے کہ رئیل اسٹیٹ، غیر ملکی کرنسی اور سونے میں لگا دی جاتی ہے۔ جو افراد اپنا سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کر سکتے ہیں، وہ عام طور پر دبئی اور دیگر ممالک میں رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ اس سے پیداواری شعبوں میں سرمایہ کاری اور سرمایے کی تشکیل میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔

اس کے نتائج واضح ہیں — انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے علاوہ، نجی شعبے نے گزشتہ ایک دہائی میں کوئی بڑا منصوبہ شروع نہیں کیا۔ حیرت کی بات نہیں کہ پاکستان کا سرمایہ کاری سے جی ڈی پی تناسب پچاس سال کی کم ترین سطح پر ہے۔

جو لوگ پاکستان میں دولت اکٹھی کرتے ہیں، وہ زبردست کرنسی گراوٹ کی وجہ سے اپنی کمائی کھو دیتے ہیں، جیسا کہ حالیہ برسوں میں کئی دولت مند افراد کے ساتھ ہوا۔ موجودہ بلند شرح سود کے پیشِ نظر، کوئی بھی بڑی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

پیشہ ور افراد کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ وہ اپنی آمدنی کا 40 سے 50 فیصد ٹیکس میں ادا کرتے ہیں، جبکہ مشرقِ وسطیٰ میں انہیں کوئی ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑتا۔ نتیجتاً، مختلف صنعتوں میں درمیانی سطح کے کئی پیشہ ور افراد بیرونِ ملک منتقل ہو چکے ہیں۔

اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مالی اور انسانی وسائل دونوں پاکستان سے فرار ہو رہے ہیں، جو ملک کے غیر متوازن ٹیکس نظام کو مسترد کر رہے ہیں۔

وزیرِ خزانہ اس مسئلے کو تسلیم کرتے ہیں کہ ٹیکس کی شرحیں غیر متناسب طور پر زیادہ ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ ٹیکس فائلنگ کے عمل کو آسان بنانا چاہتے ہیں۔ تاہم، وہ ٹیکس کی شرحوں کو معقول بنانے میں خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔

دوسری جانب، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) مایوسی کے عالم میں نئے اقدامات متعارف کر رہا ہے، جیسے کہ ”نااہل افراد“ کی ایک نئی کیٹیگری، جنہیں مخصوص کاروباری لین دین یا اثاثوں کی ملکیت سے روک دیا جائے گا۔ یہ واضح نہیں کہ آیا اس اقدام سے ٹیکس نیٹ اور وصولی میں اضافہ ہو گا یا نہیں۔

البتہ، اس سے ایف بی آر حکام کو ایماندار ٹیکس دہندگان کو ہراساں کرنے کا مزید اختیار ضرور مل جائے گا۔ پہلے ہی ان کی کارکردگی کا معیار اس بنیاد پر پرکھا جاتا ہے کہ وہ کتنے نوٹس جاری کرتے ہیں اور موجودہ ٹیکس دہندگان سے کتنی اضافی رقم طلب کرتے ہیں۔

کئی افراد غیر ضروری نوٹسز ملنے کی شکایت کرتے ہیں اور بالکل بجا طور پر ایسا کرتے ہیں۔ تنخواہ دار افراد کو ایف بی آر کی جانب سے نوٹس موصول ہو رہے ہیں کہ وہ اپنے آجر کے ذریعے کاٹے گئے ٹیکس کے کمپیوٹرائزڈ ادائیگی رسیدیں (سی پی آرز) فراہم کریں، حالانکہ وہ پہلے ہی سرٹیفکیٹس جمع کرا چکے ہیں۔ اگر یہ ہراسانی نہیں، تو اور کیا ہے؟

وزیرِ مملکت برائے خزانہ، علی ملک، کا کہنا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کی سخت شرائط کے تحت کام کر رہا ہے اور اسے بلند ٹیکس اہداف حاصل کرنے کا دباؤ ہے۔ جب گزشتہ بجٹ پیش کیا گیا تھا، تو کہا گیا تھا کہ تاجروں اور رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز سے مناسب ٹیکس وصول کیا جائے گا۔

تاہم، اس محاذ پر کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اب حکومت زرعی ٹیکس پر انحصار کر رہی ہے، اور صوبے اس حوالے سے ضروری قانون سازی پر کام کر رہے ہیں۔ لیکن نتیجہ شاید مختلف نہ ہو۔ بوجھ بدستور دجسٹرڈ شعبے پر پڑتا رہے گا، جو مسلسل سکڑتا جا رہا ہے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025

Comments

200 حروف