موبائل ورچوئل نیٹ ورک آپریٹر (ایم وی این او) فریم ورک، جو ٹیلی کام سیکٹر کی توسیع اور نئی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے متعارف کیا گیا ہے، منظوری کے لیے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن کے زیر غور ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے اس کا حتمی مسودہ تیار کر کے وزارت کو ارسال کر دیا ہے۔ اس فریم ورک کے تحت چھوٹی ٹیلی کام کمپنیوں کو پندرہ سالہ لائسنس دیے جائیں گے، جس کے ذریعے وہ اپنے برانڈ نام کے تحت کام کر سکیں گی اور اپنی مخصوص خدمات فراہم کر سکیں گی۔
ابتدائی لائسنس فیس ایک لاکھ چالیس ہزار امریکی ڈالر یا اس کے مساوی پاکستانی روپے رکھی گئی ہے، جو نیشنل بینک آف پاکستان کے مقررہ ایکسچینج ریٹ پر ایک ساتھ ادا کرنا ہوگی۔ یہ لائسنس پندرہ سال کے لیے جاری کیا جائے گا، جس کی باہمی معاہدے کے ذریعے تجدید کرائی جا سکے گی۔ اگر کسی بھی وجہ سے کسی ایم وی این او کا اپنے بنیادی موبائل نیٹ ورک آپریٹر (ایم این او) کے ساتھ معاہدہ ختم ہو جاتا ہے اور کوئی دوسرا متبادل معاہدہ موجود نہیں ہوتا، تو اس کا لائسنس معطل کر دیا جائے گا۔ تاہم، اگر ایم وی این او کسی دوسرے یا اسی ایم این او کے ساتھ نیا معاہدہ پیش کرتا ہے تو لائسنس بحال کر دیا جائے گا۔
بنیادی ایم این او کو سالانہ ریگولیٹری فیس اور دیگر مالیاتی ذمہ داریاں ادا کرنی ہوں گی، جن میں یونیورسل سروس فنڈ (یو ایس ایف) اور ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ (آر اینڈ ڈی) کے اخراجات شامل ہیں۔ ایم وی این او اپنے ایم این او کو جو بھی اخراجات واپس کرے گا، انہیں ایم این او کے سالانہ ریگولیٹری اخراجات میں شامل نہیں کیا جا سکے گا۔
ایم وی این او اپنی ٹیلی کام سروسز فراہم کرنے کے لیے اسپیکٹرم کا مالک نہیں ہوگا بلکہ کسی ایم این او کے نیٹ ورک کو استعمال کرے گا۔ اس فریم ورک میں چار مختلف ماڈلز متعارف کرائے گئے ہیں۔ ریسیلر ماڈل کے تحت ایم وی این او کو صرف اپنے برانڈ نام اور مارکیٹنگ کی اجازت ہوگی جبکہ وہ صرف وہی خدمات فراہم کر سکے گا جو بنیادی ایم این او فراہم کر رہا ہوگا۔ سروس پرووائیڈر ماڈل میں ایم وی این او کو برانڈنگ، کسٹمر کیئر اور بلنگ کی اجازت ہوگی لیکن وہ اپنا کوئی ٹیلی کام نیٹ ورک انسٹال نہیں کر سکے گا۔ انہانسڈ سروس پرووائیڈر ماڈل میں ایم وی این او کو بنیادی ایم این او کی خدمات کے ساتھ ساتھ اپنی مخصوص خدمات فراہم کرنے کی بھی اجازت ہوگی، اور اسے محدود پیمانے پر نیٹ ورک عناصر انسٹال کرنے کی سہولت دی جائے گی۔ مکمل ایم وی این او ماڈل کے تحت کمپنی کو ایم این او جیسی تمام خدمات فراہم کرنے کی اجازت ہوگی، بشمول اپنا کور نیٹ ورک انسٹال کرنا، تاہم وہ ایکسیس نیٹ ورک انسٹال نہیں کر سکے گا۔
ایم این او اور ایم وی این او کو مشترکہ طور پر ایک تکنیکی اور کاروباری منصوبہ، اور ایک تجارتی معاہدے کا مسودہ اتھارٹی کو جمع کرانا ہوگا۔ ایم وی این او کو اجازت ہوگی کہ وہ معاہدے کے مطابق اپنے نیٹ ورک کے کچھ عناصر انسٹال کر سکے، لیکن یہ صرف اتھارٹی کی منظوری کے بعد ممکن ہوگا۔ ایک مرتبہ معاہدہ منظور ہو جانے کے بعد، کسی بھی فریق کو اسے اتھارٹی کی اجازت کے بغیر تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
ایم وی این او اپنی خدمات کے معیار کو برقرار رکھنے کا مکمل طور پر ذمہ دار ہوگا اور اسے پی ٹی اے کے مقرر کردہ معیارات پر پورا اترنا ہوگا۔ اسے قومی سلامتی کے تقاضوں کو پورا کرنے، لا انفورسمنٹ ایجنسیوں کو درکار معلومات فراہم کرنے اور سم ایکٹیویشن اور ڈی ایکٹیویشن کے اصولوں پر عمل کرنے کی بھی ذمہ داری دی جائے گی۔
ایم وی این او کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ اس کے صارفین کو بغیر کسی رکاوٹ کے خدمات ملتی رہیں۔ ایم این او کو بھی اس بات کا پابند بنایا جائے گا کہ وہ ایم وی این او کی خدمات کو بند نہ کرے یا ان میں کسی قسم کی کمی نہ کرے، جب تک کہ پی ٹی اے سے باقاعدہ منظوری حاصل نہ کر لی جائے۔ ایم وی این او کو اپنے صارفین کی شکایات کے حل کے لیے ہر اس شہر میں کم از کم ایک کسٹمر کیئر سینٹر قائم کرنا ہوگا جہاں وہ اپنی خدمات فراہم کر رہا ہو، اور ایک چوبیس گھنٹے فعال ہیلپ لائن بھی قائم کرنا ہوگی۔
ایم وی این او کو اپنے صارفین سے متعلق قانونی تقاضے پورے کرنے اور تمام شکایات کے بروقت حل کو یقینی بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اسے اپنے تجارتی اصول اور معیاری سروس کنٹریکٹ پی ٹی اے کو منظوری کے لیے جمع کرانے ہوں گے، اور ان پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔ مزید برآں، ایم وی این او کو پی ٹی اے کے ڈی آئی آر بی ایس (ڈی آئی آر بی ایس) سسٹم اور چوری شدہ یا گمشدہ ڈیوائسز کے حوالے سے مقررہ قواعد پر بھی عمل درآمد کرنا ہوگا۔
یہ فریم ورک پاکستان کی ٹیلی کمیونیکیشن پالیسی 2015 کے تحت تیار کیا گیا ہے اور اس کا مقصد مارکیٹ میں مقابلے کو فروغ دینا، صارفین کو بہتر خدمات فراہم کرنا اور ڈیجیٹل جدت طرازی کو آگے بڑھانا ہے۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2025
Comments