ڈیپ سیک کا اچانک اُبھرنا بہت دلچسپ اور سبق آموز رہا۔ اس نے امریکہ اور چین کے تعلقات کے بارے میں سرخیاں قطعی طور پر بدل ڈالیں، ٹرمپ کے ٹیرف سے توجہ ہٹائی، نَسڈَک اسٹاک مارکیٹ میں ٹریلین ڈالر کا نقصان پہنچایا، اتار چڑھاؤ کے انڈیکس (وی آئی ایکس) کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچادیا۔ امریکی ٹیکنالوجی کے بڑے اداروں کو ہلا کر رکھ دیا اور بڑی امریکی ٹیک کمپنیوں کے اونچی قدر میں کمی کے جواز پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے بند نظام میں شگاف ڈال دیے۔

اب امریکی مالیاتی ذرائع ابلاغ یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا وہ لمحہ آن پہنچا ہے کہ اب اے آئی کے مرحلے میں امریکہ پیچھے کی جانب ہٹ رہا ہے۔ جیسا کہ وینچر کیپیٹلر مارک اینڈریسن نے کہا کیا یہ مالیاتی منڈیوں پر ایک بڑا حملہ ہے جس نے سلکون ویلی کی اہم کمپنیوں کو ایک ہی دن میں ٹریلین ڈالر کا نقصان پہنچایا؟

اگرچہ مارکیٹ جلد ہی دوبارہ بہتر ہونا شروع ہوئی، امریکہ کے اے آئی کے رہنما اور ٹرمپ کی حکومت یہ سوچ رہی ہے کہ چین نے یہ سب اتنی تیزی سے کیسے کیا، اور آئندہ کیا کچھ ہو سکتا ہے۔

اوپن سورسنگ مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کے مضمرات پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے – ٹھیک ہے – لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ ایک نسبتا نامعلوم چینی مصنوعی ذہانت فرم نے ایک ہی جھٹکے میں امریکہ کی ٹاپ ٹیک فرموں اور اس کی حکومت کو تیار نہ رہنے کی حالت میں کیسے دکھادیا۔

کئی سالوں سے امریکی پالیسی سازوں اور سلیکون ویلی کے رہنماؤں نے دنیا کو یقین دلایا ہے کہ چین کی مصنوعی ذہانت کی ترقی کو جدید سیمی کنڈکٹر پر سخت پابندیوں کی وجہ سے دبایا جا رہا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ کے ایکسپورٹ کنٹرول سے بیجنگ کے مصنوعی ذہانت کے عزائم کو سست کرنے کی توقع کی جا رہی تھی جس کے تحت اینویڈیا چپس تک رسائی بند کر دی گئی تھی۔

اس کے باوجود ڈیپ سیک کی کامیابی نے واشنگٹن کی وسیع تر ٹیکنالوجی کنٹرول حکمت عملی کی غیر مؤثریت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اگر چین جدید ترین چپس کے بغیر جدید مصنوعی ذہانت تیار کرسکتا ہے تو وہ کون سی دیگر تکنیکی رکاوٹوں کو دور کرے گا، اور کتنی آسانی سے؟

اس کے بعد اوپن سورسنگ کا مخمصہ ہے۔ میٹا کو چھوڑ کر امریکی مصنوعی ذہانت کی کمپنیاں اپنے ماڈلز کی سخت حفاظت کرتی رہی ہیں اور انہیں ملکیتی اور کمرشلائزڈ رکھتی ہیں۔

ڈیپ سیک کی ریلیز ایک ایسا متبادل پیش کرکے اس صورت حال کو چیلنج کرتی ہے جو اعلی معیار اور آزادانہ طور پر دستیاب ہے۔ اگر یہ رجحان جاری رہا تو امریکی کمپنیاں اپنے نقطہ نظر پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو سکتی ہیں یا زیادہ چاق و چوبند حریفوں سے آگے نکلنے کا خطرہ مول لے سکتی ہیں۔ دریں اثنا، امریکی حکومت، جو مصنوعی ذہانت کی اوپن سورسنگ سے متعلق قواعد و ضوابط پر بحث کر رہی ہے، کو ایک نئی اسٹریٹجک تشویش کا سامنا ہے۔ کیا ملک میں اوپن سورس مصنوعی ذہانت کو محدود کرنے سے چین کو فائدہ ہوتا ہے؟

مالیاتی مارکیٹوں نے یقینی طور پر نوٹ کیا کیونکہ اینویڈیا نے پیر کے روز مارکیٹ ویلیو میں 600 بلین ڈالر کی کمی ریکارڈ کی جو تاریخ میں کسی بھی کمپنی کے لئے ایک دن میں سب سے بڑا نقصان ہے۔ یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ سرمایہ کار یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آیا وال اسٹریٹ کی طرف سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جانے والا اے آئی کا عروج واقعی پائیدار ہے، جب کہ متبادل اور رکاوٹ ڈالنے والی مسابقت دنیا کے غیر متوقع گوشوں سے ابھر کر سامنے آ سکتی ہے؛ خاص طور پر وہ کھلاڑی جو امریکہ نے اس دوڑ میں حصہ نہ لینے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے۔

یہ سب کچھ ٹرمپ انتظامیہ کی پوزیشن کو مزید غیر مستحکم بنا دیتا ہے۔ یہ خیال کہ واشنگٹن اہم ٹیکنالوجی کی ترقی پر کنٹرول برقرار رکھ سکتا ہے اب شبہات کا شکار ہے۔

اگر ڈیپ سیک چین کے مصنوعی ذہانت کے نظام سے صدماتی کیفیت کی بڑی لہر ہے تو کیا امریکہ کو مزید جھٹکوں کیلئے تیار ہونے کی ضرورت ہے؟ اصل سوال یہ ہے کہ کیا امریکی ردعمل مطابقت رکھے گا یا پابندیوں کا ایک اور دور ہوگا جو چین کو سست کرنے میں ناکام رہے گا۔

تاہم ایک شکی مزاج، ٹیرف کے حامی اور تحفظ پسند صدر کے وائٹ ہاؤس میں ہونے کی صورت میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ نتیجہ کیا نکل سکتا ہے۔

Comments

200 حروف