ایرانی وزیر خارجہ کا طالبان حکومت کے بعد پہلا دورہ کابل
ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی سرکاری دورے پر کابل پہنچے ہیں، وہ2021 میں طالبان کے قبضے کے بعد کابل پہنچنے والے پہلے اعلی ترین ایرانی عہدیدار ہیں۔
وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی کے مطابق یہ ایک روزہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے اور ”باہمی مفادات کے حصول“ کی کوششوں کا حصہ ہے۔
سرکاری ٹی وی کے مطابق کابل پہنچنے پر انہوں نے اپنے افغان ہم منصب امیر خان متقی سے ملاقات کی اور بعد ازاں وہ نائب وزیر اعظم برائے اقتصادی امور عبدالغنی برادر سے ملاقات کریں گے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ بات چیت سرحدی سلامتی، سیاسی تعلقات کو مضبوط بنانے اور اقتصادی تعلقات کو وسعت دینے کے گرد گھومے گی۔
حالیہ برسوں میں ایران اور افغانستان کے درمیان پانی کے حقوق اور ہلمند اور ہریرود دریاؤں پر ڈیموں کی تعمیر پر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
ایران کی سرحد افغانستان کے ساتھ 900 کلومیٹر (560 میل) سے زیادہ ہے، اور اسلامی جمہوریہ دنیا میں پناہ گزینوں کی سب سے بڑی آبادی کی میزبانی کرتا ہے، جن میں سے زیادہ تر افغان ہیں جو دو دہائیوں کی جنگ کے دوران اپنے ملک سے فرار ہوئے تھے۔
اگست 2021 میں امریکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغان مہاجرین کی آمد میں اضافہ ہوا ہے۔
ستمبر میں، ایران میں مقامی میڈیا نے افغانستان کے ساتھ مشرقی سرحد کے 10 کلومیٹر سے زیادہ کے ساتھ ایک دیوار کی تعمیر کا اعلان کیا، جو تارکین وطن کے داخلے کا اہم ذریعہ ہے.
حکام نے اس وقت کہا تھا کہ سرحد کو مضبوط بنانے کے لیے اضافی طریقوں میں خاردار تاریں اور پانی سے بھری کھائیاں شامل ہیں تاکہ ’ایندھن اور سامان، خاص طور پر منشیات کی اسمگلنگ‘ کو روکا جا سکے اور ’غیر قانونی امیگریشن‘ کو روکا جا سکے۔
دسمبر میں اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر امیر سعید ایرانی نے کہا تھا کہ ”60 لاکھ سے زیادہ افغان وں نے ایران میں پناہ لی ہے“۔
ایران کئی سالوں سے افغانستان میں فعال سفارتی موجودگی رکھتا ہے، لیکن اس نے قبضے کے بعد سے ابھی تک طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔
گزشتہ کئی سالوں میں متعدد ایرانی وفود افغانستان کا دورہ کر چکے ہیں جن میں اگست 2023 میں ایک پارلیمانی وفد بھی شامل ہے تاکہ پانی کے حقوق پر بات چیت کی جا سکے۔
Comments