حماس نے چار اسرائیلی یرغمالیوں کو ریڈ کراس کے حوالے کردیا
- اسرائیل یرغمالیوں کے بدلے 200 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا، ذرائع
حماس نے اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت مزید 4 صہیونی یرغمالی رہا کردیے،ہفتے کو 4 خواتین یرغمالیوں کو غزہ میں بھرے مجمع میں ریڈ کراس کے حکام کے حوالے کردیا گیا۔
اے ایف پی کے ایک صحافی نے غزہ شہر کے مرکزی چوک میں اسٹیج پر چار افراد کی حوالگی دیکھی۔ اس موقع پر حماس کے درجنوں ماسک پہنے افراد پہلے ہی جمع تھے۔
ریڈ کراس کی چار گاڑیاں حوالگی سے پہلے پہنچ چکی تھیں۔
حماس اور اسلامی جہاد سے تعلق رکھنے والے جنگجو، جن کے ہاتھوں میں رائفلیں اور راکٹ سے چلنے والے گرینیڈ لانچر تھے، قطاروں میں جمع ہوئے، جن میں سے کئی نے اپنے گروپوں کے بینر اٹھا رکھے تھے اور سبز رنگ کی پٹیاں باندھرکھی تھیں۔
اسرائیل نے جمعہ کو اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اسے یرغمالیوں کے ناموں کی ایک فہرست موصول ہوئی ہے۔
ہفتے کو فلسطینی ذرائع نے کہا تھا کہ اسرائیل یرغمالیوں کے بدلے 200 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔
اسرائیلی یرغمالیوں اور لاپتہ خاندانوں کے فورم کے مطابق رہا ہونے والی خواتین میں کرینہ اریف، ڈینیلا گلبوا، ناما لیوی اور 19 سالہ لیری الباگ شامل ہیں۔
انہیں 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے بعد سے 15 ماہ سے زائد عرصے تک یرغمال بنایا گیا تھا۔
قطر میں قائم حماس کے پولیٹیکل بیورو کے ایک رکن باسم نعیم نے اے ایف پی کو بتایا کہ جنگ کی وجہ سے جنوبی غزہ میں بے دخل ہونے والے فلسطینیوں کو ہفتے کے روز کی رہائی کے بعد شمال کی طرف واپس آنے کی اجازت ملنی چاہیے.
جنگ بندی کی وجہ سے غزہ میں خوراک، ایندھن، طبی اور دیگر امداد میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر نے جمعہ کو اس بات کی تصدیق کی ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے، غزہ کی مرکزی امدادی ایجنسی، جمعرات تک اسرائیل میں تمام کارروائیاں بند کردے گی۔
یرغمالیوں اور قیدیوں کا تبادلہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کا حصہ ہے جو گزشتہ اتوار سے نافذ العمل ہے اور جس کا مقصد جنگ کے مستقل خاتمے کی راہ ہموار کرنا ہے۔
قطر اور امریکہ کے ثالثوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری سے چند روز قبل اس معاہدے کا اعلان کیا تھا۔ ٹرمپ نے کئی ماہ کے بے نتیجہ مذاکرات کے بعد اس معاہدے کو حاصل کرنے کا سہرا اپنے سر باندھا ہے۔
حماس کے مسلح ونگ عزالدین القسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ نے جمعہ کو ٹیلی گرام پر بتایا کہ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت قسام بریگیڈ نے کل چار خواتین فوجیوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے تصدیق کی ہے کہ انہیں ثالثوں کے ذریعے یہ نام موصول ہوئے ہیں۔
’تشویش اور خوف‘
اسرائیل کی جیل سروس کے مطابق رہا ہونے والے کچھ فلسطینی غزہ جائیں گے جبکہ باقی اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے واپس جائیں گے۔
جنگ بندی معاہدے پر3 مرحلوں میں عمل درآمد ہونا چاہیے لیکن آخری دو مراحل کو ابھی حتمی شکل نہیں دی گئی۔
یرغمالی نمرود کوہن کی والدہ وکی کوہن کا کہنا ہے کہ ’یہ تشویش اور خوف کہ معاہدے پر آخر تک عمل درآمد نہیں ہو سکے گا، ہم سب کو کھا رہا ہے۔
غزہ میں ایک سال سے زائد عرصے سے جاری جنگ کی وجہ سے بے گھر ہونے والے خاندان اپنے گھروں کو واپس جانے کے لیے ترس رہے ہیں، لیکن بہت سے لوگوں کو صرف وہ ملبہ ملے گا جہاں کبھی گھر ہوا کرتے تھے۔
ایک بے گھر خاتون اقرا قاسم نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’اگر ہم واپس جانے کے بارے میں بھی سوچیں تو تباہی کی وجہ سے ہمارے لیے اپنے خیمے لگانے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
اتوار سے شروع ہونے والے پہلے 42 روزہ مرحلے کے دوران 33 یرغمالیوں کو اسرائیل کی جیلوں میں قید تقریبا 1900 فلسطینیوں کی رہائی کے بدلے مرحلہ وار رہا کیا جانا چاہیے۔
پہلے دن تین یرغمالی ایملی داماری، رومی گونن اور ڈورن اسٹائن بریچر وطن واپس پہنچ گئے۔
اس کے بدلے میں90 فلسطینیوں، جن میں زیادہ تر خواتین اور نابالغ شامل تھے، کو رہا کر دیا گیا۔
اس معاہدے کا دوسرا مرحلہ جنگ کے مستقل خاتمے کے لیے مذاکرات کرنا ہے لیکن تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ اس معاہدے کی کثیر الجہتی نوعیت اور اسرائیل اور حماس کے درمیان گہرے عدم اعتماد کی وجہ سے اس کے ٹوٹنے کا خطرہ ہے۔
حماس کے زیر انتظام علاقے کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی جوابی کارروائی میں غزہ میں کم از کم 47 ہزار 283 افراد شہید ہوئے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔
’صورتحال اب بھی سنگین
قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن بن جاسم الثانی نے کہا ہے کہ معاہدے کے تحت غزہ کے گنجان آباد علاقوں سے اسرائیلی افواج کے انخلا کا مقصد تبادلوں کے ساتھ ساتھ ”بے گھر افراد کی ان کی رہائش گاہوں میں واپسی“ کی اجازت دینا ہے۔
غزہ کی تقریبا 2.4 ملین آبادی جنگ کی وجہ سے بے گھر ہو چکی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق یکم دسمبر تک غزہ کی پٹی میں تقریبا 69 فیصد عمارتیں تباہ یا تباہ ہو چکی تھیں اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام نے گزشتہ سال اندازہ لگایا تھا کہ تباہ شدہ گھروں کی تعمیر نو میں 2040 تک کا وقت لگ سکتا ہے۔
جنگ بندی شروع ہونے کے بعد سے روزانہ سینکڑوں ٹرک امدادی سامان غزہ میں داخل ہو رہے ہیں لیکن اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ’انسانی صورتحال اب بھی سنگین ہے۔‘
فلسطینی پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یو این آر ڈبلیو اے کو جمعرات سے موثر طور پر کام کرنے سے روک دیا جائے گا۔
اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس کو لکھے گئے ایک خط میں سفیر ڈینی ڈینن نے تصدیق کی ہے کہ ’یو این آر ڈبلیو اے کو 30 جنوری 2025 تک یروشلم میں اپنی کارروائیاں بند کرنے اور شہر میں کام کرنے والے تمام احاطے کو خالی کرنے کی ضرورت ہے۔
یو این آر ڈبلیو اے کے سربراہ فلپ لازارینی نے جمعہ کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر متنبہ کیا کہ ایجنسی کو کام کرنے سے روکنا “غزہ کی جنگ بندی کو سبوتاژ کر سکتا ہے، جس سے ایک بار پھر ان لوگوں کی امیدوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے جو ناقابل بیان مصائب سے گزر رہے ہیں۔
Comments