جنوری میں مہنگائی کی شرح 3 فیصد سے کم رہنے کا امکان
- مالی سال 2025 کے پہلے 7 ماہ میں اوسط مہنگائی کی شرح 6.7 فیصد تک پہنچ جائے گی
مارکیٹ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سی پی آئی پر مبنی افراط زر میں کمی کا سلسلہ جاری رہنے کا امکان ہے اور اندازوں کے مطابق جنوری میں مہنگائی 3 فیصد سے بھی کم ہوسکتی ہے۔
جے ایس گلوبل نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ افراط زر میں مسلسل کمی کا رجحان برقرار رہنے کی توقع ہے اور جنوری 2025 میں سی پی آئی کے 2.8 فیصد تک گرنے کا امکان ہے (نومبر 2015 کے بعد سے سب سے کم) حالانکہ ماہانہ بنیاد پر 0.6 فیصد کا اضافہ متوقع ہے ۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اس طرح مالی سال 2025 کے پہلے 7 ماہ میں اوسط افراط زر کی شرح 6.7 فیصد تک پہنچ جائے گی جو مالی سال 24 کے 7 ماہ کی اوسط سے 28.7 فیصد کم ہے۔
اسی طرح کی رپورٹ ایک اور بروکریج ہاؤس اسماعیل اقبال سیکیورٹیز لمیٹڈ نے بھی پیش کی ہے۔
بروکریج ہاؤس نے کہا کہ جنوری 25 کے لئے افراط زر کی شرح 2.9 فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جو پچھلے سال کے اسی دورانیے میں 28.3 فیصد سے نمایاں کمی کو ظاہر کرتی ہے، جو قیمتوں کے دباؤ میں نمایاں کمی کی عکاسی کرتا ہے۔
ادارہ شماریات کے مطابق دسمبر 2024 میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح سالانہ 4.1 فیصد رہی جو نومبر 2024 کے مقابلے میں 4.9 فیصد کم ہے۔
بروکریج ہاؤسز نے نوٹ کیا کہ افراط زر کی ریڈنگ میں مسلسل کمی مرکزی بینک کو کلیدی پالیسی ریٹ میں مزید کٹوتی کی ترغیب دیتی ہے۔
جے ایس گلوبل نے کہا کہ ہمارے خیال میں مہنگائی میں مسلسل کمی، جو مئی 2025 سے سنگل ڈیجٹ میں مستحکم ہو جائے گی، مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) کے لیے نرمی کے عمل کو جاری رکھنے کا مزید مضبوط جواز پیش کرتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اس ماہ مزید کمی کی توقع رکھتے ہیں۔
اسماعیل اقبال نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے آئندہ پالیسی اجلاس میں 100 بی پی ایس کٹوتی کی پیش گوئی کی۔
انہوں نے مزید کہا اگرچہ موجودہ مہنگائی کا ماحول سازگار ہے لیکن مئی 2025 سے بیس ایفیکٹ میں کمی کے ساتھ دباؤ دوبارہ ظاہر ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں مہنگائی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
گزشتہ ماہ اسٹیٹ بینک کی ایم پی سی نے پالیسی ریٹ کو 200 بی پی ایس کم کرکے 13 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مجموعی طور پر گزشتہ پانچ مسلسل مانیٹری پالیسی فیصلوں کے دوران جون سے پالیسی ریٹ میں 900 بی پی ایس کی کمی واقع ہوئی ہے۔
Comments