دنیا

ڈونلڈ ٹرمپ نے 47 ویں امریکی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا

  • صدر ٹرمپ کی حلف برداری کے ساتھ فاتحانہ انداز میں واپسی ہوگئی ہے جبکہ وہ مواخذے کے 2 مقدمات، ایک سنگین سزا، 2 بار قتل کی کوششوں اور 2020 کے انتخابات میں اپنی شکست کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنے پر فرد جرم عائد کیے جانے کے باوجود سزا سے بچ گئے ہیں۔
شائع January 20, 2025

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو تاریخ رقم کرتے ہوئے دوسرے دور صدارت کا حلف اٹھا لیا جس کے بعد انہوں نے اپنے خطاب کے دوران وائٹ ہاؤس میں اپنی غیر معمولی واپسی کے موقع پر امیگریشن اور امریکی ثقافتی جنگوں کے سلسلے میں فوری احکامات جاری کرنے کا عہد کیا ہے۔

ایک ہاتھ فضا میں بلند کرتے اور دوسرا ہاتھ اپنی والدہ کی جانب سے دی گئی بائبل پر رکھتے ہوئے 47 ویں امریکی صدر نے یو ایس کیپیٹل کے روٹنڈا ہال کے اندر حلف اٹھایا۔

اس سے قبل ریپبلکن صدر ٹرمپ اور سبکدوش ہونے والے ڈیموکریٹک صدر جو بائیڈن موٹر قافلے کے ذریعے کیپیٹل پہنچے، جہاں سرد موسم کی وجہ سے دہائیوں میں پہلی بار تقریب کیپیٹل کے اندر اور بہت کم ہجوم کے ساتھ منعقد کی جا رہی تھی۔

اس سے قبل وہ اور ان کی شریک حیات وائٹ ہاؤس میں روایتی چائے پینے کے لیے ملے تھے۔

بائیڈن اور خاتون اول جل بائیڈن نے صدارتی رہائش گاہ کے سامنے والے دروازے پر اپنے جانشینوں کا استقبال کرتے ہوئے ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس میں خوش آمدید کہا۔

78 سالہ ٹرمپ 2017 میں 45 ویں صدر کی حیثیت سے اپنی پہلی حلف برداری کے وقت ایک غیر سیاسی نوارد شخصیت تھے لیکن اس بار وہ امریکہ کے امیر اور طاقتور افراد سے گھرے ہوئے ہیں۔

دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک، میٹا باس مارک زکربرگ، ایمازون کے سربراہ جیف بیزوس اور گوگل کے سی ای او سندر پچائی کے علاوہ کیپیٹل ہاؤس میں ٹرمپ کے اہل خانہ اور کابینہ کے ارکان بھی اہم نشستوں پر موجود تھے۔

مسک، جنہوں نے ٹرمپ کی انتخابی مہم میں ایک چوتھائی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور ایکس سوشل نیٹ ورک پر انتہائی دائیں بازو کی پالیسیوں کو فروغ دیا، نئی انتظامیہ میں اخراجات میں کمی کی مہم کی قیادت کریں گے۔

اگرچہ ٹرمپ نے ڈیموکریٹ کی جانب سے انتخابی دھاندلی کا جھوٹا دعویٰ کرنے کے بعد بائیڈن کی 2021 کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت سے انکار کر دیا تھا لیکن اس بار بائیڈن روایت کے احساس کو بحال کرنے کے خواہاں ہیں۔

بائیڈن نے سابق صدور براک اوباما، جارج ڈبلیو بش اور بل کلنٹن کے ساتھ کیپیٹل ہاؤس میں شرکت کی۔ سابق خاتون اول ہیلری کلنٹن اور لارا بش بھی وہاں موجود تھیں لیکن سابق خاتون اول مشیل اوباما اس سے دور رہیں۔

’امریکی زوال‘

غیر معمولی طور پر ایک حلف برداری تقریب میں جہاں عام طور پر غیر ملکی رہنماؤں کو مدعو نہیں کیا جاتا ہے، ارجنٹائن کے انتہائی دائیں بازو کے صدر جیویئر مائلی اٹلی کے انتہائی دائیں بازو کے وزیر اعظم جارجیا میلونی کے ساتھ شرکت کر رہے تھے۔

1985 میں رونالڈ ریگن کے بعد پہلی بار سخت سردی کے موسم نے ٹرمپ کو عمارت کے اندر حلف اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے، جس کی وجہ سے نیشنل مال کے ساتھ روایتی طور پر بڑے پیمانے پر لوگوں کی عدم موجودگی کا سامنا کرنا پڑا۔

اس تقریب کے پیچھے ارب پتی شخصیات اپنے قوم پرست، دائیں بازو کے ایجنڈے کا آغاز کر رہے ہیں اور تقریباً 100 ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے بائیڈن کے سیاسی وراثے کو ختم کر رہے ہیں۔

ٹرمپ کی آنے والی انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ٹرمپ میکسیکو کی سرحد پر قومی ایمرجنسی کا اعلان کریں گے، امریکی فوج کو سرحد پر اہم کردار دیں گے اور پیدائشی شہریت ختم کریں گے۔

ٹرمپ نے غیر قانونی تارکین وطن کی فوری ملک بدری شروع کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

وہ امریکی حکومت کے لیے صرف دو حیاتیاتی جنسوں کو تسلیم کرنے اور عہدہ سنبھالنے کے بعد وفاقی حکومت کے تنوع کے پروگراموں کو ختم کرنے کے حکم نامے پر بھی دستخط کریں گے۔ سخت گیر پالیسیوں کا اعلان ٹرمپ کی جانب سے ’بالکل نیا دن‘ منانے اور ’چار سالہ امریکی زوال‘ کے خاتمے کا وعدہ کرنے کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے۔

ٹرمپ نے حلف برداری کے موقع پر ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں تاریخی رفتار اور طاقت کے ساتھ کام کروں گا اور ہمارے ملک کو درپیش ہر بحران کو حل کروں گا۔

’پرجوش‘

ایک نئے ”سنہری دور“ کا وعدہ کرنے کے باوجود، پاپولسٹ ٹرمپ نے نومبر میں ڈیموکریٹک نائب صدر کملا ہیرس کے خلاف اپنی کامیاب انتخابی مہم میں ملک کی اکثر تباہ کن تصویروں پر بھی مہم چلائی۔

پیر کے روز طلوع آفتاب کے وقت نیشنل مال، جہاں اصل میں حلف برداری ہونی تھی، کافی حد تک خالی تھا – سوائے فیئرچائلڈ خاندان کے، جنہوں نے ٹرمپ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے مشی گن سے سفر کیا تھا۔

دادی بارب سے جب پوچھا گیا کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’خوشی ہے کہ عمارت کے اندر یہ اقدام ’ہمارے صدر کی حفاظت کے لیے‘ اٹھایا گیا ہے۔

اپنی صدارت ختم ہونے سے چند منٹ قبل جو بائیڈن نے اپنے بھائیوں اور بہنوں کو ’بے بنیاد اور سیاسی محرکات پر مبنی تحقیقات‘ سے بچانے کے لیے غیر معمولی پیشگی معافی جاری کی ہے۔

انہوں نے سابق کووڈ 19 مشیر انتھونی فاؤچی، ریٹائرڈ جنرل مارک ملی اور 6 جنوری 2021 کو امریکی کیپیٹل پر ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے پرتشدد حملے کی تحقیقات کرنے والی امریکی ایوان نمائندگان کی کمیٹی کے ارکان کو بھی معاف کر دیا۔

بائیڈن نے کہا کہ انہوں نے اپنے جانشین کے نام ایک خط چھوڑنے کی روایت کو بھی بحال کر دیا ہے اگرچہ انہوں نے کہا کہ اس کے مندرجات صرف ٹرمپ اور ان کے درمیان ہے۔

ٹرمپ بائیڈن کی جگہ حلف اٹھانے والے معمر ترین صدر بن کر تاریخ رقم کرگئے۔ وہ 1893 میں گروور کلیولینڈ کے بعد اقتدار سے باہر ہونے کے بعد اقتدار میں واپس آنے والے امریکی تاریخ کے دوسرے صدر ہیں۔

ایک اوراہم بات ٹرمپ کا مجرمانہ ریکارڈ ہے، جس کا تعلق ایک پورن اسٹار کو اپنے پہلے صدارتی انتخاب کے دوران خفیہ رقم ادا کرنے سے ہے – اور اس سے کہیں زیادہ سنگین مجرمانہ تحقیقات کا سلسلہ ہے جو نومبر میں انتخاب جیتنے کے بعد ختم کردیا گیا تھا۔

باقی دنیا کے لئے ٹرمپ کی واپسی کا مطلب غیر متوقع کی توقع کرنا ہے.

بھاری محصولات کے وعدے سے لے کر گرین لینڈ اور پاناما کو علاقائی دھمکیاں دینے اور یوکرین کے لیے امریکی امداد پر سوالیہ نشان لگانے تک، ٹرمپ ایک بار پھر عالمی نظام کو ہلا کر رکھ دینے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے حلف برداری سے قبل ٹرمپ کو مبارکباد دی اور پیر کے روز کہا کہ وہ یوکرین تنازع پر بات چیت کے لیے تیار ہیں اور انہیں امید ہے کہ کوئی بھی تصفیہ ’دیرپا امن‘ کو یقینی بنائے گا۔

Comments

200 حروف