جمعہ کو امریکی سپریم کورٹ نے ایک قانون کی توثیق کی جس کے تحت ٹِک ٹاک کو امریکہ میں قومی سلامتی کے وجوہات کی بنا پر بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر ٹک ٹاک کی چینی پیرنٹ کمپنی بائٹ ڈانس اتوار تک اس شارٹ وڈیو ایپ کو فروخت کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو اس پر پابندی عائد کردی جائے گی۔ صفر کے مقابلے میں 9 کے تناسب سے دیے گئے فیصلے میں ججز نے اس پلیٹ فارم کو بچانے کی درخواست مسترد کر دی جو تقریبا نصف امریکی آبادی استعمال کرتی ہے۔
ججوں نے فیصلہ سنایا کہ یہ قانون، جسے گزشتہ سال کانگریس میں دو طرفہ اکثریت سے منظور کیا گیا تھا اور جس پر ڈیموکریٹک صدر جو بائیڈن نے دستخط کیے تھے، امریکی آئین کی پہلی ترمیم کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ ججوں نے ماتحت عدالت کے اس فیصلے کی توثیق کی جس نے ٹک ٹاک، بائٹ ڈانس اور ایپ کے کچھ صارفین کی جانب سے اسے چیلنج کیے جانے کے بعد اس اقدام کو برقرار رکھا تھا۔
عدالت نے اپنی غیر دستخط شدہ تجویز میں کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ 170 ملین سے زائد امریکیوں کے لیے، ٹِک ٹاک اظہار کا ایک منفرد اور وسیع پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے، جو مشغولیت کا ایک ذریعہ اور کمیونٹی کا حصہ ہے۔ لیکن کانگریس نے یہ طے کیا ہے کہ ٹِک ٹاک کی ڈیٹا اکٹھا کرنے کی مشقیں اور ایک غیر ملکی حریف کے ساتھ اس کے تعلقات کے حوالے سے اپنے مضبوط قومی سلامتی کے خدشات کو دور کرنے کے لیے اس کے کاروبار کو فروخت کرنا ضروری ہے۔
عدالت نے مزید کہا کہ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ چیلنج کی گئی دفعات درخواست گزاروں کے پہلی ترمیم کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں کرتی ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ بائیڈن اتوار کی ڈیڈ لائن تک ٹِک ٹاک کو بچانے کے لیے کوئی اقدام نہیں کریں گے۔ ریپبلکن ڈونلڈ ٹرمپ، جو ٹِک ٹاک پر پابندی کے مخالف تھے، پیر کو بائیڈن کی جگہ صدارت سنبھالیں گے۔
اس کیس نے سوشل میڈیا کے دور میں آزادی اظہار کے حقوق کو قومی سلامتی کے خدشات کے برخلاف لا کھڑا کیا ہے۔
عدالت نے کہا کہ وہ چین کے حوالے سے امریکی حکومت کے قومی سلامتی کے خدشات کو ”نمایاں توجہ یا احترام“ دے رہی ہے۔ ججز نے اس بات کا ذکر کیا کہ کیس میں موجود شواہد سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چین نے اسٹرکچرڈ ڈیٹا سیٹس کو جمع کرنے کے لیے وسیع اور برسوں پر محیط کوششیں کی ہیں، خاص طور پر امریکی افراد کے بارے میں تاکہ اپنی انٹیلی جنس اور کاؤنٹر انٹیلی جنس آپریشنز کی مدد کی جا سکے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کارین ژان پیئر نے ایک بیان میں بائیڈن کے موقف کو دہرایا کہ ٹِک ٹاک کو امریکیوں کے لیے دستیاب رہنا چاہیے مگر صرف امریکی یا کسی ایسی ملکیت میں جو کانگریس کے تیار کردہ اس قانون میں شناخت کیے گئے قومی سلامتی کے خدشات کو حل کرے۔
وقت کے پیش نظر ژان پیئر نے مزید کہا کہ قانون کو نافذ کرنے کے لیے آئندہ انتظامیہ کو اقدامات کرنے ہوں گے۔
ٹرمپ کی ٹیم نے فوری طور پر تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
ٹِک ٹاک نے بھی فوری طور پر تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔ بدھ کو روئٹرز کو اس معاملے سے واقف افراد نے بتایا کہ اگر آخری لمحات تک کوئی مہلت نہ دی گئی تو ٹِک ٹاک اتوار کو ایپ کے امریکہ میں آپریشنز بند کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
بائیڈن کی جانب سے باضابطہ طور پر ڈیڈ لائن میں 90 دن کی توسیع کے فیصلے کے بغیر ٹک ٹاک کو خدمات فراہم کرنے والی یا ایپ کی میزبانی کرنے والی کمپنیوں کو قانونی ذمہ داری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ فوری طور پر یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ٹک ٹاک کے کاروباری شراکت دار بشمول گوگل، ایپل اور اوریکل ٹرمپ کے حلف اٹھانے سے پہلے اس کے ساتھ کاروبار جاری رکھیں گے یا نہیں۔ غیر یقینی صورتحال نے اتوار کو ٹک ٹاک کی جانب سے بندش کا امکان قوی کردیا ہے۔
فوری کارروائی
سپریم کورٹ نے قانون کے تحت طے شدہ ڈیڈ لائن سے صرف نو دن پہلے 10 جنوری کو دلائل دیتے ہوئے اس معاملے میں تیزی سے کارروائی کی۔
ٹک ٹاک امریکہ میں سب سے نمایاں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں سے ایک ہے، جسے تقریبا 270 ملین امریکی استعمال کرتے ہیں، جن میں بہت سے نوجوان بھی شامل ہیں۔ ٹک ٹاک کا طاقتور الگورتھم، اس کا اہم اثاثہ، انفرادی صارفین کو ان کی پسند کے مطابق مختصر ویڈیوز فیڈ کرتا ہے۔ پلیٹ فارم صارفین کی طرف سے جمع کردہ ویڈیوز کا ایک بہت بڑا مجموعہ پیش کرتا ہے ، جو اکثر ایک منٹ کے دورانیے سے بھی کم ہوتا ہے ، جسے اسمارٹ فون ایپ یا انٹرنیٹ پر دیکھا جاسکتا ہے۔
چین اور امریکہ اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی حریف ہیں اور ٹک ٹاک کی چینی ملکیت نے کئی برسوں سے امریکی رہنماؤں میں تشویش پیدا کردی ہے۔ ٹک ٹاک کی لڑائی جو بائیڈن کی صدارت کے دنوں کے دوران اور ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان تجارتی تناؤ بڑھ رہا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس قانون کے تحت ایپ کو غیر ملکی حریف کے کنٹرول سے ہدف بنایا گیا ہے نہ کہ محفوظ تقریر اور اگر ٹک ٹاک کو چین کے کنٹرول سے آزاد کر دیا جاتا ہے تو وہ اسی طرح کام جاری رکھ سکتا ہے۔
کیس میں دلائل کے دوران محکمہ انصاف کی وکیل الزبتھ پریلوگر نے کہا کہ ٹک ٹاک پر چینی حکومت کا کنٹرول امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے ’سنگین خطرہ‘ ہے، چین امریکیوں کے بارے میں حساس ڈیٹا جمع کرنے اور خفیہ اثر و رسوخ کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ پری لوگر نے کہا کہ چین بائٹ ڈانس جیسی کمپنیوں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ خفیہ طور پر سوشل میڈیا صارفین کا ڈیٹا واپس کریں اور چینی حکومت کی ہدایات پر عمل کریں۔
پریلوگر نے مزید کہا کہ ٹک ٹاک کا بے پناہ ڈیٹا سیٹ ایک طاقتور ٹول کی نمائندگی کرتا ہے جسے چینی حکومت ہراساں کرنے، بھرتیوں اور جاسوسی کے لیے استعمال کر سکتی ہے اور یہ کہ چین “کسی بھی وقت ٹک ٹاک کو امریکہ کو نقصان پہنچانے کے لیے ہتھیار بنا سکتا ہے۔
یہ قانون گزشتہ اپریل میں منظور کیا گیا تھا۔ بائیڈن انتظامیہ نے عدالت میں اس کا دفاع کیا۔ ٹک ٹاک اور بائٹ ڈانس کے ساتھ ساتھ ایپ پر مواد پوسٹ کرنے والے کچھ صارفین نے اس اقدام کو چیلنج کیا تھا اور 6 دسمبر کو ڈسٹرکٹ آف کولمبیا سرکٹ کے لیے امریکی کورٹ آف اپیلز میں شکست کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل کی تھی۔
ٹرمپ کی جانب سے اس پابندی کی مخالفت ان کے پہلے دور اقتدار کے موقف میں تبدیلی کی عکاسی کرتی ہے جب انہوں نے ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کے دل میں ٹک ٹاک کے لیے گرم جوشی ہے اور اس ایپ نے 2024 کے انتخابات میں ان کی نوجوان ووٹرز کے ذریعے مدد کی۔
دسمبر میں ٹرمپ نے سپریم کورٹ سے درخواست کی تھی کہ وہ اس قانون کو روک دے تاکہ ان کی آنے والی انتظامیہ کو “اس معاملے میں زیر بحث سوالات کے سیاسی حل کو آگے بڑھانے کا موقع مل سکے۔ تاہم ٹرمپ نے ٹک ٹاک کو ’بچانے‘ کا عزم ظاہر کیا ہے جبکہ ان کے کئی ریپبلکن اتحادیوں نے اس پابندی کی حمایت کی ہے۔
ٹرمپ کے نئے قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز نے جمعرات کو کہا تھا کہ اگر کوئی قابل عمل معاہدہ ہوتا ہے تو نئی انتظامیہ امریکہ میں ٹک ٹاک کو فعال رکھے گی۔ والٹز کا کہنا تھا کہ آنے والی انتظامیہ ٹک ٹاک کو بند ہونے سے بچانے کے لیے اقدامات کرے گی۔ انہوں نے قانون کی ایک شق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر ٹک ٹاک کو بند کرنے کی سمت میں اہم پیش رفت ہوتی ہے تو اس میں 90 دن کی توسیع کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
امریکی سینیٹ میں ڈیموکریٹک رہنما چک شومر نے کہا ہے کہ ٹک ٹاک کو امریکی خریدار تلاش کرنے کے لیے مزید وقت دیا جانا چاہیے اور وہ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کریں گے تاکہ ہماری قومی سلامتی کا تحفظ کرتے ہوئے ٹک ٹاک کو زندہ رکھا جا سکے۔
ٹک ٹاک کے سی ای او شو زی چیو پیر کے روز ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کریں گے اور مدعو دیگر اہم شخصیات کے درمیان بیٹھیں گے۔
آزادی اظہار رائے کے حقوق
ٹک ٹاک نے کہا ہے کہ اس قانون سے نہ صرف اس کے اور اس کے صارفین بلکہ تمام امریکیوں کے حقوق بھی خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ ٹک ٹاک نے کہا ہے کہ اس پابندی سے اس کے صارفین، ایڈورٹائزرز، مواد تخلیق کرنے والوں اور ملازمین کے ٹیلنٹ متاثر ہوں گے۔ ٹک ٹاک کے 7,000 امریکی ملازمین ہیں۔
ٹک ٹاک اور بائٹ ڈانس کے وکیل نوئل فرانسسکو نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ یہ ایپ ’امریکہ کے مقبول ترین اسپیچ پلیٹ فارمز میں سے ایک ہے‘ اور کہا کہ قانون کے مطابق اگر بائٹ ڈانس نے مناسب علیحدگی نہ کی تو ٹک ٹاک کو بند کر دیا جائے گا۔
فرانسسکو نے کہا کہ اس قانون کے ذریعے امریکی حکومت کا اصل ہدف تقریر ہے ، خاص طور پر اس خوف سے کہ امریکیوں کو ”چینی غلط معلومات سے قائل کیا جاسکتا ہے۔“ فرانسسکو نے کہا کہ لیکن پہلی ترمیم یہ معاملہ حکومت پر نہیں بلکہ امریکہ کے عوام پر منحصر ہے۔
یہ قانون ٹک ٹاک اور دیگر غیر ملکی مخالفین کے زیر کنٹرول ایپس کو مخصوص خدمات فراہم کرنے پر پابندی عائد کرتا ہے جن میں ایپل اور الفابیٹ کے گوگل جیسے ایپ اسٹورز کے ذریعے اسے پیش کرنا بھی شامل ہے۔
Comments