اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی سکیورٹی کابینہ نے غزہ کی جنگ بندی اور یرغمالیوں کی واپسی کے معاہدے کی منظوری دینے کی سفارش کی ہے۔
کابینہ اجلاس مقامی وقت کے مطابق سہ پہر ساڑھے تین بجے متوقع تھا جس میں معاہدے کی حتمی توثیق دی جانے تھی، جس کے بارے میں وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ اس کا اطلاق اتوار سے ہوگا اور پہلے یرغمالیوں کی رہائی ہوگی۔
مقامی حکام کے مطابق اگر جنگ بندی کامیاب ہو جاتی ہے تو حماس اور اسرائیلی افواج کے درمیان لڑائی رک جائے گی جس نے غزہ کے زیادہ تر علاقوں کو تباہ کر دیا ہے، 46 ہزار سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور جنگ سے قبل کی 23 لاکھ آبادی میں سے زیادہ تر کو متعدد بار بے گھر ہونا پڑا ہے۔
مجوزہ جنگ بندی معاہدے سے مشرق وسطیٰ میں دشمنی میں بھی کمی آسکتی ہے، جہاں غزہ کی جنگ ایران اور اس کے آلہ کاروں – لبنان کی حزب اللہ، یمن کے حوثیوں اور عراق کے ساتھ ساتھ مقبوضہ مغربی کنارے میں مسلح گروہوں تک پھیل گئی ہے۔
غزہ میں جمعے کے روز بھی اسرائیلی جنگی طیاروں نے شدید حملے جاری رکھے اور سول ایمرجنسی سروس کا کہنا ہے کہ بدھ کے روز معاہدے کے اعلان کے بعد سے اب تک 58 خواتین اور بچوں سمیت کم از کم 101 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
تین مرحلوں پر مشتمل معاہدے کے چھ ہفتوں کے پہلے مرحلے کے تحت حماس 33 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گی جن میں تمام خواتین (فوجی اور شہری)، بچے اور 50 سال سے زائد عمر کے مرد شامل ہیں۔
اسرائیل پہلے مرحلے کے اختتام تک اسرائیلی جیلوں میں قید 19 سال سے کم عمر تمام فلسطینی خواتین اور بچوں کو رہا کرے گا۔ رہائی پانے والے فلسطینیوں کی مجموعی تعداد یرغمالیوں کی رہائی پر منحصر ہوگی اور ان کی تعداد 990 سے 1650 کے درمیان ہوسکتی ہے جن میں مرد، خواتین اور بچے شامل ہیں۔
حماس نے جمعے کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ غزہ جنگ بندی معاہدے کی شرائط کے حوالے سے پیدا ہونے والی رکاوٹوں کو دور کر لیا گیا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے اس معاہدے کی منظوری اس وقت تک باضابطہ نہیں ہوگی جب تک کہ ملک کی سیکورٹی کابینہ اور حکومت اس کی منظوری نہیں دے دیتی۔
جمعے کی علی الصبح نیتن یاہو کے دفتر نے کہا ہے کہ اسرائیل کی سلامتی کابینہ جنگ بندی معاہدے کی حتمی منظوری دینے کے لیے اجلاس کرے گی۔
صورتحال سے واقف ایک عہدیدار نے بتایا کہ وزراء کو جمعہ کے روز مقامی وقت کے مطابق ڈیڑھ بجے کابینہ کے مکمل اجلاس میں طلب کیا گیا تھا، جس سے اتوار کو جنگ بندی شروع ہونے اور پہلے یرغمالیوں کو اسرائیل واپس بھیجنے کے لئے کافی وقت مل گیا تھا۔
اسرائیل نے حماس کو آخری لمحات میں ہونے والی تعطل کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے جبکہ حماس نے جمعرات کو کہا تھا کہ وہ اس معاہدے پر کاربند ہے جس کا اطلاق اتوار سے ہوگا۔
یرغمالیوں سے متعلق معاہدہ ہو گیا
ان کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو مذاکراتی ٹیم نے بتایا کہ یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے پر اتفاق ہو گیا ہے۔
حتمی جنگ بندی کو درپیش ممکنہ رکاوٹوں کی نشاندہی کرتے ہوئے نیتن یاہو کے اتحاد کے سخت گیر ارکان نے اس معاہدے کی مخالفت کرتے ہوئے اسے حماس کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے، جس نے غزہ کو کنٹرول کیا تھا۔ قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر نے دھمکی دی ہے کہ اگر اس کی منظوری دی گئی تو وہ استعفیٰ دے دیں گے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ وہ حکومت کو نہیں گرائیں گے۔
ان کے ساتھی وزیر خزانہ بیزل سموٹریچ نے بھی دھمکی دی ہے کہ اگر حکومت نے جنگ بندی کا پہلے چھ ہفتے مکمل ہونے کے بعد حماس کو شکست دینے کے لیے دوبارہ جنگ شروع نہیں کرنی تو وہ حکومت چھوڑ دیں گے۔
تاہم وزراء کی اکثریت سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ معاہدے کی حمایت کریں گے۔
دوسری جانب غزہ میں اسرائیل کے فضائی حملوں کا سلسلہ جاری ہے، جہاں بے گھر افراد والے خیموں پر ایک حملے کے بعد ایک لڑکے نے فرش پر تباہ شدہ اشیاء کو چھانتے ہوئے زمین پر بکھرے ڈبہ بند کھانوں اور کافی کے برتنوں کے درمیان سامان تلاش کیا۔
طبی ماہرین کے مطابق خان یونس میں ناصر اسپتال کے قریب ایک کیمپ میں کئے گئے اس حملے میں 2 افراد شہید اور 7 زخمی ہوئے تھے۔
اسی طرح خان یونس میں بھی اسرائیلی حملے میں شہید ایک شخص کے جسد خاکی کے گرد سوگوار لواحقین جمع ہوئے جبکہ اس دوران خواتین ایک دوسرے کو گلے لگا کر رو رہی تھیں۔
ایک رہائشی جمعہ عابد العال نے کہا کہ زندگی ناقابل برداشت جہنم بن چکی ہے۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے تازہ ترین حملوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
یرغمالی خاندانوں کا فوری عملدراآمد کا مطالبہ
اسرائیل کا کہنا ہے کہ غزہ میں اب بھی 98 یرغمالی قید ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ تقریبا آدھے زندہ ہیں۔ ان میں اسرائیلی اور غیر اسرائیلی شامل ہیں۔ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی قیادت میں اسرائیل پر کیے گئے حملے میں 94 اور غزہ میں 2014 سے اب تک 4 افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
پہلی بار اسرائیلی حکام نے یرغمالیوں کے خاندانوں کو باضابطہ طور پر پہلے 33 افراد کے ناموں سے آگاہ کیا ہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ فہرست میں شامل کتنے افراد اب بھی زندہ ہیں۔
غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ کی نمائندگی کرنے والے ایک گروپ نے جمعرات کو نیتن یاہو پر زور دیا کہ وہ جلد آگے بڑھیں۔
جنگ بندی کا معاہدہ بدھ کے روز قطر، مصر اور اسرائیل کے اہم حامی امریکہ کی ثالثی کے بعد سامنے آیا تھا۔ یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے ساتھ ساتھ اس معاہدے میں غزہ سے اسرائیلی فوجیوں کا بتدریج انخلا بھی شامل ہے۔
اس سے ساحلی پٹی کے لئے انسانی امداد میں اضافے کی راہ بھی ہموار ہوتی ہے ، جہاں آبادی کی اکثریت بے گھر ہوگئی ہے اور بھوک ، بیماری اور سردی کا سامنا ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے ایک عہدیدار نے جمعے کے روز کہا کہ معاہدے کی شرائط کے تحت غزہ میں امدادی درآمدات کو بڑے پیمانے پر بڑھا کر ایک دن میں تقریبا 600 ٹرکوں کی آمد ممکن ہونا چاہیے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری کے اوائل میں امدادی کارروائیوں میں روزانہ اوسط 51 ٹرکوں کے مقابلے میں اسے روزانہ 10 گنا بڑھانے کی ضرورت ہے۔
مقبوضہ فلسطینی علاقے کے لیے ڈبلیو ایچ او کے نمائندے رک پیپرکورن نے جنیوا میں ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ ’میرے خیال میں اس بات کا امکان بہت زیادہ ہے اور خاص طور پر جب دیگر راستوں کو کھول دیا جائے گا۔‘ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ امدادی درآمدات میں اضافہ بہت تیزی سے کیا جا سکتا ہے۔
Comments