نئے عوامی جذبات کے تحت تبدیلی کی خواہش سے متاثر بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت بتدریج لیکن مستقل طور پر بھارتی اثر و رسوخ سے باہر نکل رہی ہے اور یہ اقدامات محتاط انداز میں سوچ سمجھ کر اٹھائے جا رہے ہیں۔ جسے بنگلہ دیش میں بہت سے لوگ آمرانہ اور معیشت، توانائی کی سلامتی، سرحدی سلامتی اور خارجہ امور کے لحاظ سے ریاست کی خودمختاری کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھتے ہیں۔

ان جذبات کے جواب میں بنگلہ دیش کی خارجہ پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی آئی ہے۔ اس نے خطے میں بھارت کی بالادستی سے خود کو کافی حد تک دور کر لیا ہے اور خطے میں دو طرفہ اتحاد بنا رہا ہے۔ اس نے بہتر تعلقات اور اپنے تعلقات میں ایک نئی شروعات کے لئے پاکستان سے بھی رابطہ کیا ہے۔ سی این این نیوز 18 کے ساتھ ایک انٹرویو میں نگران سربراہ حکومت کے ترجمان نوبل انعام یافتہ محمد یونس نے کہا کہ محمد یونس سارک کی بحالی اور تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں اور اس میں پاکستان بھی شامل ہے اور اب ہم ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اچھے تعلقات قائم کر رہے ہیں۔

ایسے ہی جذبات کا اظہار بنگلہ دیش کے ماہرینِ رائے نے بھی کیا ہے۔ پاکستان بنگلہ دیش تعلقات پر منعقدہ ایک بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایک بنگلہ دیشی ماہر نے پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ مزید برآں، پاکستان کے حامی پروفیسر نے بنگلہ دیش کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو تاریخی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم تاریخی رشتوں کے پابند ہیں۔ شاہد الزماں نے بنگلہ دیش پاکستان تعلقات کے بارے میں کہا کہ ہم نشیب و فراز سے گزرے ہیں لیکن ہم نے ہمیشہ محسوس کیا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ اُس وقت کے مشرقی پاکستان کی مغربی پاکستان سے علیحدگی کے ہولناک واقعات کے گواہ شاید اپنے زندگی میں ان پرانے تعلقات کی بحالی کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔

بھارت جنوبی ایشیائی تعاون تنظیم کی بحالی کے حق میں نہیں۔ 2016 میں اس تنظیم کا عملہ طور پر خاتمہ ہوگیا جب اسلام آباد میں 2016 میں ہونے والی سارک کانفرنس کو اس وقت کی پی ایم ایل-این حکومت نے منسوخ کر دیا، کیونکہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان سے ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کے بہانے 19ویں سارک سربراہی اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ دیگر جنوبی ایشیائی رہنما بھی مودی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ اس طرح پاکستان خطے میں اکیلا اور بے بس رہ گیا۔

بھارت خطے میں اپنا تسلط چاہتا تھا اور پاکستان اس کے لیے رکاو تھا۔ بھارت کا ارادہ اس وقت سامنے آیا جب سارک چھوڑنے کے فورا بعد نئی دہلی نے بمسٹیک (خلیج بنگال انیشی ایٹو فار ملٹی سیکٹرل ٹیکنیکل اینڈ اکنامک کوآپریشن) کو علاقائی تعاون کے متبادل فورم کے طور پر فروغ دینا شروع کر دیا۔

بمسٹیک سات ممالک پر مشتمل ہے جن میں سارک کے آٹھ ارکان میں سے پانچ بھی شامل ہیں۔ اس میں بھارت، بنگلہ دیش، بھوٹان، سری لنکا، میانمار، نیپال اور تھائی لینڈ شامل ہیں۔ اس میں پاکستان کو شامل نہیں کیا گیا ہے، جس پر بھارت سارک کے فریم ورک کے تحت علاقائی رابطوں کے منصوبوں کو روکنے کا الزام لگاتا رہا ہے۔

نئی دہلی کی توجہ خطے کی توانائی کی سلامتی سے فائدہ اٹھانے پر ہے۔ بنگلورو میں بمسٹیک انرجی سینٹر (بی ای سی) قائم کیا گیا ہے جو بھارت، بنگلہ دیش، بھوٹان، سری لنکا، میانمار، نیپال اور تھائی لینڈ کے درمیان اس شعبے میں علاقائی تعاون کو فروغ دے گا۔ حکومت ہند نے ’میزبان ملک کے معاہدے‘ پر دستخط کیے ہیں۔

بنگلورو میں بی ای سی علاقائی توانائی کے ڈیٹا بیس کا انتظام کرے گا، انٹرا بمسٹیک منصوبوں کے لئے فزیبلٹی اسٹڈیز کرے گا اور بمسٹیک رکن ممالک کی قومی ایجنسیوں کے درمیان نیٹ ورکنگ کے لئے ایک فریم ورک تیار کرکے تعاون میں اضافہ کرے گا۔ یہ گرڈ انٹر کنکشنز، قابل تجدید توانائی کی ترقی اور توانائی کی کارکردگی کے حصول کے ذریعے توانائی کے تحفظ کو بھی فروغ دے گا۔

بمسٹیک اب بجلی کی ترسیل اور تجارت، بجلی کے تبادلے اور ٹیرف میکانزم کے لئے پالیسیوں کو حتمی شکل دینے پر کام کر رہا ہے۔ بلاک کے اندر بمسٹیک گرڈ انٹرکنکشن ماسٹر پلان بھی زیر غور ہے۔

بھارت کی قیادت میں ان تمام اقدامات کا مطلب یہ ہے کہ اس جنوبی ایشیائی خطے کی توانائی کی حفاظت بھارت کے ہاتھوں میں رہے گی، جس سے اسے ان ممالک کے توانائی کے وسائل، خاص طور پر بھوٹان اور نیپال کے پن بجلی کے وسائل سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا۔ یہ بھارت کے لئے خطے میں توانائی کی مارکیٹ پر اجارہ داری قائم کرنے کے راستے بھی کھولتا ہے۔ اس کی بہترین مثال بنگلہ دیش کی ہے۔

بنگلہ دیش اپنی بجلی کی ضروریات کے لئے بنیادی طور پر بھارت پر انحصار کرتا ہے۔ 25 سالہ معاہدے کے تحت بنگلہ دیش اپریل 2023 سے اڈانی گروپ آف انڈیا سے بجلی حاصل کر رہا ہے جبکہ دیگر بھارتی پلانٹس سے تقریبا 1160 میگاواٹ بجلی حاصل کر رہا ہے۔

اڈانی پاور کی قیمت بنگلہ دیش کے لیے 12 ٹکا ( 0.1008 ڈالر) فی یونٹ پڑتی ہے اور یہ بات بنگلہ دیش پاور ڈویلپمنٹ بورڈ کے ایک عہدیدار نے 2023/24 کے مالی سال کے لیے حالیہ آڈٹ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتائی۔ یہ بھارت کے دیگر نجی پیداواری اداروں کے نرخوں سے 27 فیصد زیادہ ہے اور بھارتی سرکاری پلانٹس کے نرخوں سے 63 فیصد زیادہ ہے انہوں نے مزید کہا کہ یہ بنگلہ دیش کے لیے مالی طور پر غیر مستحکم ہوتا جا رہا ہے۔

بھارت کا پاکستان کو خطے میں کسی بھی اہم موجودگی سے الگ کرنے کا ایجنڈا واضح ہے۔ بھارت نے سارک کو چھوڑا تاکہ اسے ختم کرنے کا عمل تیز کیا جاسکے، وہ برکس میں پاکستان کو شامل ہونے سے روکنے کیلئے اپنی ویٹو پاور کا استعمال کررہا ہے حالانکہ اس عالمی بلاک میں اس سے بہت چھوٹی معیشتیں شامل ہو چکی ہیں۔

پاکستان اپنے داخلی سیاسی اور اقتصادی بحران میں گھرا ہوا تھا اور اس نے اس تنہائی کو خاموشی سے برداشت کیا۔ سارک کی بحالی کے لئے بنگلہ دیش کے ساتھ ہاتھ ملانے کا موقع پاکستان کے لئے خطے میں اپنی اہمیت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے صحیح سمت ہے۔ سارک کی بحالی شاید ممکن نہ ہو لیکن اس کا متبادل تیار کیا جا سکتا ہے جس میں وہ ممالک شامل ہو سکتے ہیں جو بھارت کی بالادستی سے نکلنا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔

صرف حکومتیں ہی یہ سب کچھ نہیں کر سکتیں۔ نجی شعبے کو بھی اس میں شامل ہونا ہوگا۔ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کا ایک وفد بہت جلد بنگلہ دیش کا دورہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ بنگلہ دیش میں کاروبار کے لیے سازگار لاگت اور آسانی کی وجہ سے پاکستان کی کئی صنعتیں، خاص طور پر ٹیکسٹائل انڈسٹری، بنگلہ دیش منتقل ہونے پر غور کر رہی ہیں۔

Comments

200 حروف