غزہ پر اسرائیلی فضائی بمباری تیز، درجنوں افراد شہید، جنگ بندی کی کوششیں جاری
- اسرائیلی حملوں میں جمعے کی صبح 27 افراد شہید ہوئے، ایک روز قبل المواسی میں 71 افراد لقمہ اجل بنے، علاقے کو اسرائیلی فوج نے حفاظتی زون قرار دے رکھا ہے
اسرائیلی فوج نے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غزہ میں درجنوں مقامات پر فضائی حملے کیے ہیں، فلسطینی صحت حکام کےمطابق ان حملوں کے نتیجے میں تقریبا 100 افراد شہید ہوئے۔
اسرائیل کی جانب سے تازہ بمباری اور اموات میں اضافہ ایسے موقع پر ہوا ہے جب نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدے سنبھالنے سے پہلے جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے کی نئی کوششیں جاری ہیں۔ اس سلسلے میں بدھ کے روز اسرائیلی ثالثوں کو دوحہ بھیجا گیا تھا تاکہ قطری اور مصری ثالثوں کے ذریعے بات چیت دوبارہ شروع کی جا سکے۔
غزہ کی وزارت صحت نے بتایا ہے کہ جمعے کی صبح بمباری کے نتیجے میں 27 افراد شہید ہوئے جبکہ اس بمباری سے ایک روز قبل 71 افراد شہید ہوئے۔ حکام کے مطابق کئی افراد المواسی کے علاقے میں مارے گئے ہیں جنہیں اسرائیلی حکام نے انسانی ہمدردی کی بنیادی پر پہلے ہی حفاظتی زون قرار دے رکھا ہے۔
اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس نے حماس کے تقریباً 40 ایسے مقامات کو نشانہ بنایا ہے جو کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کے طور پر استعمال ہورہے تھے اور جہاں جنگجو جمع ہوتے تھے۔ اسرائیلی فوج نے یہ بھی کہا کہ اس نے شہریوں کو نقصان پہنچانے کے خطرے کو کم کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے، جن میں بمباری کا درست استعمال، فضائی نگرانی اور دیگر انٹیلی جنس ذرائع کا استعمال شامل ہے۔
اسرائیل نے حماس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ جنگجوؤں کو شہری علاقوں میں تعینات کر رہی ہے جن میں وہ عمارتیں بھی شامل ہیں جنہیں پہلے اسکولوں کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ حماس ان الزامات کو مسترد کرتی ہے کہ وہ جنگجوؤں کو بچانے کے لیے جان بوجھ کر شہری آبادی کو استعمال کرتی ہے۔
جمعے کے روز اسرائیلی فوج نے وسطی غزہ میں البریج کے علاقے میں شہریوں سے کہا تھا کہ وہ علاقے سے راکٹ حملوں کے بعد شروع کیے جانے والے آپریشن سے قبل وہاں سے نکل جائیں۔ بیان میں کہا گیا کہ رہائشیوں کو اپنی حفاظت کے لئے انسانی زون میں منتقل ہونا چاہئے۔
اسرائیلی جارحیت کے سبب غزہ کا بڑا حصہ ملیا میٹ ہوگیا ہے اور بیشتر فلسطینی بے گھر ہوچکے ہیں، اس جارحیت کے نتیجے میں مجموعی طور پر 45،581 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔
تعطل کا شکار سفارتکاری
امریکہ، مصر اور قطر ثالث کی حیثیت سے ایک سال سے جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کیلئے معاہدے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انہیں کوئی کامیابی نہیں ملی ہے اور وہ رواں ماہ ٹرمپ کی 20 جنوری کی حلف برداری سے قبل ایک اور کوشش کر رہے ہیں۔
جنگ بندی کی کوششیں سلسل ایک بنیادی اختلاف، تنازع کو کس طرح ختم کی جائیں، کے سبب ناکام ہورہی ہیں۔ حماس کا کہنا ہے کہ وہ صرف اسی صورت میں کسی معاہدے کو قبول کرے گی اور یرغمالیوں کو رہا کرے گی جب اسرائیل اپنی جارحیت ختم کرنے کا عہد کرے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حماس کے تباہ ہونے کے بعد ہی اپنے حملے روکنے پر رضامند ہوگا۔
امریکی صدر جو بائیڈن بار بار جنگ بندی کے معاہدے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر ان کی حلف برداری سے قبل یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ نہیں ہوا تو ’سب کچھ ختم ہو جائے گا‘۔
اسرائیلی فوج غزہ کے تقریبا ہر حصے میں داخل ہو چکی ہے لیکن اب بھی حماس سے لڑنے کا دعویٰ کر رہی ہے۔
موسم خزاں کے دوران اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ میں شدید لڑائی دوبارہ شروع کر دی ہے، جہاں وہ بار ہار شہریوں کو انخلا کے احکامات دیتی رہی ہے، جبکہ جنوب میں اب بھی بڑے پیمانے پر حملے جاری ہیں۔
دسمبر کے اواخر میں غزہ کی وزارت صحت کی طرف سے اعلان کردہ یومیہ اموات کے مطابق 28 دسمبر کو 48، 22 دسمبر کو 58 اور 20 دسمبر کو 77 فلسطینی شہید ہوئے۔ وزارت کے اعداد و شمار کے مطابق دسمبر میں اموات کی تعداد میں 1124 کا اضافہ ہوا جبکہ نومبر میں یہ تعداد 1170 اور اکتوبر میں 1621 تھی۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ جمعرات کو خان یونس اور المواسی کے پناہ گزین کیمپ میں حماس کو نشانہ بنایا ہے، اسرائیلی فوج نے المواسی کو محفوظ زون قرار دے رکھا ہے۔
جمعرات کو اموات کی تعداد کے بارے میں پوچھے جانے پر اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے دعویٰ کیا کہ اس نے غزہ میں 15 ماہ سے جاری جارحیت میں بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کی اور شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کیں۔
Comments