سال 2024 پاکستان کی سفارتکاری کے لیے ایک سرگرم سال رہا، جس میں ملک کی بین الاقوامی شناخت کو بڑھانے اور دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے پر توجہ دی گئی۔
تاہم، پاکستان کو شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے پر شدید بین الاقوامی تنقید کا سامنا رہا۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے ان فیصلوں کی سخت مذمت کی۔
پاکستان نے آذربائیجان، بیلاروس، بیلجیم، چین، مصر، ایران، سعودی عرب، قطر، روس، ترکی، یو اے ای، اور دیگر ممالک کے ساتھ اعلیٰ سطحی دوروں کا تبادلہ کیا۔ صدر آصف علی زرداری نے ترکمانستان میں ”بین الاقوامی امن اور ترقی“ کے فورم میں شرکت کی، جبکہ وزیراعظم نے آذربائیجان، چین، ایران، سعودی عرب، اور دیگر ممالک کے دورے کیے۔
سال 2024 میں پاکستان نے کئی اعلیٰ سطحی غیر ملکی شخصیات کی میزبانی کی۔ چین، سعودی عرب، ایران، اور دیگر ممالک کے وزراء اور اقوام متحدہ کے اعلیٰ کمشنر برائے مہاجرین سمیت دیگر اہم عالمی عہدیدار پاکستان آئے۔
دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ پاکستان نے مساوات، باہمی مفادات اور فائدہ مند تعاون کی بنیاد پر دنیا کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیا۔ چین، سعودی عرب، ترکی اور اسلامی دنیا کے ساتھ روایتی تعلقات مزید مضبوط کیے گئے۔
پاکستان اور چین کے درمیان 2024 میں قریبی تعلقات اور اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کا تبادلہ ہوا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے جون میں چین کا دورہ کیا جبکہ چینی وزیراعظم لی کیان اکتوبر میں پاکستان آئے۔ دونوں ممالک نے سی پیک سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کو بڑھانے پر اتفاق کیا۔
سعودی عرب کے ساتھ وزیراعظم کے چار دوروں کے دوران سیاسی، سیکیورٹی اور معاشی شعبوں میں اہم معاہدے کیے گئے، جن میں 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے پیکیج پر عملدرآمد شامل ہے۔
ایران کے ساتھ تعلقات سال کے آغاز میں فوجی حملوں سے متاثر ہوئے، لیکن سفارتی مذاکرات کے ذریعے بہتری آئی۔ افغانستان کے ساتھ تجارت اور رابطے مضبوط کرنے پر توجہ دی گئی، جبکہ دہشت گردی کے خدشات ایجنڈے میں شامل رہے۔
پاکستان نے امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لیے اقدامات کیے۔ یورپی یونین نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز پر پابندی ختم کر دی، اور پی آئی اے کی پروازیں دوبارہ شروع ہوئیں۔
ترکی، آذربائیجان، اور افغانستان کے ساتھ سہ فریقی اجلاسوں سمیت دیگر اہم اجلاسوں میں بھی پاکستان نے شرکت کی۔
مختصراً، 2024 میں پاکستان نے عالمی سطح پر تعلقات کو فروغ دینے، تجارت کو بڑھانے، اور تنازعات کو کم کرنے کے لیے سفارتی سطح پر بھرپور کوششیں کیں۔
Comments