ماسکو کے اتحادی بشار الاسد کی شامی حکومت کے خاتمے نے روس کی عالمی طاقت کے تشخص کو ایک بڑا دھچکا پہنچایا ہے اور یوکرین میں اس کی فوجی حدود کو واضح کر دیا ہے۔

ماسکو نے 2015 میں شام کی خانہ جنگی میں مداخلت کرتے ہوئے بشار الاسد کو اقتدار میں رکھنے میں مدد کی تھی، لیکن چونکہ اس کی فوجیں اور فائر پاور اب یوکرین پر مرکوز ہے، اس لیے اس بار اس کی شامی حکمران کی حفاظت کرنے کی صلاحیت محدود تھی۔

باغیوں نے حکومت کا تختہ الٹنے اور بشار الاسد کو فرار ہونے میں دو ہفتوں سے بھی کم وقت کے بعد دارالحکومت دمشق پر قبضہ کر لیا تھا جبکہ روسی خبر رساں اداروں کا کہنا ہے کہ بشار الاسد کو ماسکو میں پناہ دے دی گئی ہے۔

اب یہ واضح نہیں ہے کہ آیا روس شام کی بندرگاہ طرطوس میں بحیرہ روم کے اپنے بحری اڈے کا کنٹرول برقرار رکھ سکے گا یا حمیم میں اپنے ایئر بیس پر، جس سے خطے میں ماسکو کی اسٹریٹجک فوجی موجودگی کو ختم کرنے کا خطرہ ہے۔

تجزیہ کار رسلان پخوف نے روسی روزنامے کومرسینٹ کے لیے اپنے ایک مضمون میں کہا کہ ماسکو کے پاس اتنی فوجی قوت، وسائل، اثر و رسوخ اور اختیار نہیں ہے کہ وہ سابق سوویت یونین سے باہر طاقت کے ذریعے مؤثر طریقے سے مداخلت کر سکے۔

انہوں نے کہا کہ یہ 2022 کے بعد مزید واضح ہو گیا، جب یوکرین میں ماسکو کے ”طویل“ حملے کے آغاز نے روس کی فوجی صلاحیتوں کو کم کر دیا۔

نومبر کے اواخر میں باغی گروپوں کی جانب سے بشار الاسد کے خلاف کارروائی شروع کرنے کے چند روز بعد روس نے اعلان کیا تھا کہ وہ تین شمالی صوبوں میں شامی فوج کی مدد کرتے ہوئے فضائی حملوں کا جواب دے رہا ہے۔

لیکن یہ واضح تھا کہ مداخلت محدود تھی۔

انہوں نے کہا کہ بشار الاسد کو برقرار رکھنے کی کوششیں بہرحال ناکام ہو جاتی۔ سیاسی تجزیہ کار فیوڈور لوکیانوف نے اے ایف پی کو بتایا کہ روس کی اب دیگر ترجیحات ہیں اور وسائل لامحدود نہیں ہیں۔

کریملن کا کہنا ہے کہ وہ باغیوں کے حملے کی تیز رفتاری پر حیران ہے۔

روس نے جنگ کے آخری نصف حصے میں مہلک فضائی حملوں اور تباہ کن بمباری کی مہموں کے ذریعے باغی افواج کو روکنے میں اسد کی مدد کرنے کے بعد ملک میں بھاری مالی وسائل کی سرمایہ کاری کی تھی۔

روسی خفیہ ادارے کے سربراہ سرگئی ناریشکن کے مطابق اب اسے انہی باغی گروہوں کے ساتھ ’مذاکرات‘ کرنے ہوں گے جن کو وہ اپنے شہریوں اور سفارت خانے کے عملے کی حفاظت کے لیے نشانہ بنا رہا تھا۔

انہوں نے پیر کے روز نامہ نگاروں کو بتایا، “اب یہ بنیادی مقصد ہے – ہمارے لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔

لوکیانوف نے کہا کہ معاملات مزید بگڑنے سے روس کو ملک میں اپنے فوجی اڈوں سے دستبرداری کے امکانات کا سامنا ہے۔

ترطوس میں روسی بحری اڈہ اسے بحیرہ روم میں براہ راست جنگی جہازوں کو لے جانے کی اجازت دیتا ہے ، جبکہ حمیم میں اس کا فضائی اڈہ اسے مشرق وسطی کے اوپر آسمان تک فوری رسائی فراہم کرتا ہے۔

نیویارک میں قائم سوفان سینٹر کے عالمی سلامتی کے تجزیہ کاروں نے ایک نوٹ میں کہا ہے کہ شام میں موجود یہ اڈے نہ صرف شام کے اندر بلکہ لیبیا، سوڈان اور افریقہ کے دیگر حصوں سمیت وسیع تر خطے میں طاقت پیدا کرنے کی روس کی کوششوں میں کردار ادا کرتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر روس اس گرم پانی کے بحری اڈے اور ایئر بیس کو کھو دیتا ہے تو وہ خطے میں اپنی فوجی صلاحیتوں کو کھو دے گا۔

Comments

200 حروف