جرمنی کے وزیر خارجہ نے اسرائیل اور ترکی پر زور دیا ہے کہ وہ شام میں صدر بشار الاسد کی برطرفی کے بعد پرامن اقتدار کی منتقلی کو خطرے میں نہ ڈالیں۔
برلن میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انالینا بیئربوک نے کہا کہ ہمیں شام کے اندرونی مذاکراتی عمل کو باہر سے خراب ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
ترک اور اسرائیلی حکومتوں جیسے ہمسایہ ممالک، جو اپنے سلامتی کے مفادات پر زور دے رہے ہیں، کو اس عمل کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق بشار الاسد کے خاتمے کے بعد سے اسرائیل نے شام میں ہتھیاروں کے ڈپو سے لے کر بحری جہازوں تک فوجی ٹھکانوں پر حملے شروع کیے ہیں۔
اسرائیل نے اسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں کے مشرق میں اقوام متحدہ کے گشت والے بفر زون میں بھی فوجیں بھیجی ہیں۔
دریں اثناء ترکی کو خدشہ ہے کہ کرد علیحدگی پسند بشار الاسد کی برطرفی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شام میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکتے ہیں جہاں وہ 2012 سے شمال مشرقی علاقے پر قابض ہیں۔
انقرہ کرد فورسز، خاص طور پر عسکریت پسند گروپ وائی پی جی کو کالعدم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کی توسیع کے طور پر دیکھتا ہے، جو 1980 کی دہائی سے ترک ریاست کے خلاف خونی جنگ لڑ رہی ہے۔
بشار الاسد کے فرار ہونے کے بعد سے ترکی کے حمایت یافتہ گروہوں نے شمالی شام میں حملے شروع کر دیے ہیں۔
ملک کے شمال مشرق میں کردوں کی زیر قیادت فورس نے بدھ کے روز کہا کہ وہ عرب اکثریتی شہر منبج میں ترکی کے حمایت یافتہ جنگجوؤں کے ساتھ امریکی ثالثی میں جنگ بندی پر پہنچ گئی ہے۔
باربوک نے کہا کہ شام کا ”نیا باب“ اب بھی لکھا جا رہا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ”انقلاب کے نتائج یقینی نہیں ہیں، اور نہ ہی عوام نے ایک آزاد اور پرامن شام میں منتقلی حاصل کی ہے“۔
انہوں نے کہا، “ہمیں اب شام میں مثبت پیش رفت کو فروغ دینے اور منفی اثرات کو روکنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ”بہت مخصوص الفاظ میں، اس کا مطلب یہ ہے کہ شام میں ایک مذاکراتی عمل کی ضرورت ہے، جس کی ہم بطور یورپی اور جرمن حمایت کریں گے.“
انہوں نے مزید کہا کہ شام کو دوبارہ غیر ملکی طاقتوں یا افواج کے ہاتھوں میں مہرہ بننے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
اسد کے دور حکومت میں شام ایران کا اہم اتحادی تھا۔ اسد کو روس کی بھی حمایت حاصل تھی اور 2015 میں شام میں ماسکو کی مداخلت نے ملک کی خانہ جنگی کی لہر کو بدل دیا اور ان کی حکومت کو بچانے کا سہرا انہیں جاتا ہے۔
Comments