شامی باغیوں کا سرکاری ٹیلی ویژن پر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کا اعلان
- شام کی فوجی کمان نے افسران کو بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے سے مطلع کردیا
شام کے باغیوں نے اتوار کے روز کہا ہے کہ انہوں نے بشار الاسد کی 24 سالہ آمرانہ حکومت کا خاتمہ کر دیا ہے، جس کا اعلان انتہائی شدید اور تیز رفتار حملے کے بعد سرکاری ٹیلی ویژن پر کیا گیا ۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق شامی فوج کی کمان نے اتوار کے روز افسران کو مطلع کیا کہ بشار الاسد کی حکومت ختم ہو چکی ہے۔
لیکن شامی فوج نے بعد میں کہا کہ وہ حما اور حمص کے اہم شہروں اور درعا دیہی علاقوں میں ”دہشت گرد گروہوں“ کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
فوج کے دو سینئر افسران نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ بشار الاسد، جنہوں نے ہر قسم کے اختلاف رائے کو کچل دیا تھا، اتوار کی صبح دمشق سے ایک نامعلوم مقام کے لیے روانہ ہو گئے، جب باغیوں کا کہنا تھا کہ وہ دارالحکومت میں داخل ہوئے ہیں اور فوج کی تعیناتی کا کوئی نشان نہیں ہے۔
باغیوں نے دمشق کے مضافات میں واقع ایک بڑی فوجی جیل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، “ہم اپنے قیدیوں کی رہائی کی خبر کے ساتھ شامی عوام کے ساتھ جشن منارہے ہیں اور سدنیا جیل میں ناانصافی کے دور کے خاتمے کا اعلان کرتے ہیں۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ہزاروں افراد گاڑیوں اور پیدل دمشق کے ایک مرکزی چوک پر جمع ہوئے اور ہاتھ ہلا کر اسد خاندان کی نصف صدی کی حکمرانی سے ’آزادی‘ کے نعرے لگائے۔
یہ ڈرامائی زوال مشرق وسطیٰ کے لیے ایک بڑی تبدیلی کے لمحے کی نشاندہی کرتا ہے، جس سے شام پر اس خاندان کی آہنی ہاتھوں سے حکمرانی کا خاتمہ ہوا ہے اور روس اور ایران کو ایک بڑا دھچکا لگا ہے، جنہوں نے خطے کے مرکز میں ایک اہم اتحادی کھو دیا ہے۔
واقعات کی رفتار نے عرب دارالحکومتوں کو حیران کر دیا ہے اور علاقائی عدم استحکام کی ایک نئی لہر کا خدشہ پیدا کر دیا ہے۔
یہ شام کے لیے ایک اہم موڑ ہے، جو 13 سال سے زائد عرصے کی جنگ کی وجہ سے تباہ ہو چکا ہے، جس نے شہروں کو ملبے میں تبدیل کر دیا ہے، لاکھوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں، اور لاکھوں کو بیرون ملک پناہ گزینوں کے طور پر رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔ باغیوں کی پیش قدمی میں قبضے میں آنے والے شام کے مغربی علاقوں کو مستحکم کرنا کلیدی اہمیت کا حامل ہوگا۔
مغربی حکومتیں، جنہوں نے برسوں سے اسد کی زیر قیادت ریاست سے دوری اختیار کی ہے، کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ایک نئی انتظامیہ سے کیسے نمٹا جائے جس میں عالمی سطح پر نامزد دہشت گرد گروہ حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کا اثر و رسوخ نظر آتا ہے۔
مغربی شام میں باغیوں کی پیش قدمی کی قیادت کرنے والی ایچ ٹی ایس پہلے القاعدہ سے وابستہ تنظیم تھی جسے نصرہ فرنٹ کے نام سے جانا جاتا تھا جب تک کہ اس کے رہنما ابو محمد الجیلانی نے 2016 میں عالمی عسکریت پسند تحریک سے تعلقات منقطع نہیں کیے تھے۔
یونیورسٹی آف اوکلاہوما میں شام کے ماہر اور سینٹر فار مڈل ایسٹ اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جوشوا لینڈس کا کہنا ہے کہ ’اصل سوال یہ ہے کہ یہ تبدیلی کتنی منظم ہو گی اور یہ بالکل واضح ہے کہ گولانی اس کے منظم ہونے کے خواہاں ہیں۔
گولانی 2003 میں صدام حسین کا تختہ الٹنے کے بعد عراق میں پیدا ہونے والی افراتفری کا اعادہ نہیں چاہتے۔
لینڈس کا کہنا تھا کہ ’انہیں دوبارہ تعمیر نو کرنا ہو گی اور انھیں یورپ اور امریکہ کی جانب سے عائد پابندیاں اٹھانے کی ضرورت ہو گی۔‘ ایچ ٹی ایس شام کا سب سے مضبوط باغی گروپ ہے اور کچھ شامیوں کو خوف ہے کہ وہ سخت گیر عسکریت پسند حکومت نافذ کرے گا یا انتقامی کارروائیاں کریگا۔
فلائٹ راڈار کی ویب سائٹ کے اعداد و شمار کے مطابق شامی ایئر کے ایک طیارے نے دمشق ہوائی اڈے سے اس وقت اڑان بھری جب دارالحکومت کو باغیوں نے اپنے قبضے میں لے لیا۔
طیارے نے ابتدائی طور پر شام کے ساحلی علاقے کی جانب اڑان بھری، جو اسد کے علوی فرقے کا گڑھ ہے، لیکن پھر اچانک یو ٹرن لے لیا اور کچھ منٹوں تک مخالف سمت میں پرواز کی اور نقشے سے غائب ہو گیا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز فوری طور پر یہ معلوم نہیں کر سکا کہ جہاز میں کون سوار تھا۔
دو شامی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ بشار الاسد طیارہ حادثے میں ہلاک ہوئے ہوں کیونکہ یہ ایک معمہ ہے کہ طیارے نے حیرت انگیز طور پر یو ٹرن کیوں لیا اور فلائٹ راڈار ویب سائٹ کے اعداد و شمار کے مطابق نقشے سے غائب کیوں ہو گیا۔
ایک شامی ذرائع نے مزید تفصیل بتائے بغیر بتایا کہ ’یہ ریڈار سے غائب ہو گیا، ممکنہ طور پر ٹرانسپونڈر بند کر دیا گیا تھا، لیکن میرا خیال ہے کہ اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ طیارے کو مار گرایا گیا ہو۔‘
شام کے عوام کی جانب سے خوشی کا اظہار کیے جانے پر وزیر اعظم محمد غازی الجلالی نے کہا کہ وہ حکومت کے تسلسل کی حمایت کے لیے تیار ہیں اور شامی عوام کی جانب سے منتخب کردہ کسی بھی قیادت کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کی ٹیم شام میں ہونے والے غیر معمولی واقعات کی نگرانی کر رہی ہے اور علاقائی شراکت داروں کے ساتھ رابطے میں ہے۔
شام کی خانہ جنگی، جو 2011 میں اسد کی حکومت کے خلاف بغاوت کے طور پر شروع ہوئی تھی، نے بڑی بیرونی طاقتوں کو ملوث کرلیا تھا، عسکریت پسندوں کو حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کے لئے جگہ فراہم کی اور لاکھوں پناہ گزینوں کو ہمسایہ ریاستوں میں بھیج دیا۔
شام کی پیچیدہ خانہ جنگی کے محاذ برسوں سے ٹھنڈے پڑے تھے۔
اس کے بعد القاعدہ سے وابستہ عسکریت پسند اچانک حرکت میں آ گئے اور اسد کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن گئے، جو روس، ایران اور لبنان کی حزب اللہ کی مدد سے برسوں کی سخت جنگ اور بین الاقوامی تنہائی سے بچ گئے تھے۔
لیکن اسد کے اتحادیوں کی توجہ دوسرے بحرانوں کی وجہ سے کمزور ہو گئی تھی، جس کی وجہ سے اسد کو اپنے مخالفین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تھا اور وہ ایک ایسی فوج کے ساتھ تھے جو ان کا دفاع کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔
اسرائیل، جس نے لبنان میں ایران کے حمایت یافتہ گروہوں حزب اللہ اور غزہ میں حماس کو شدید طور پر کمزور کر دیا ہے، ممکنہ طور پر ایران کے ایک اور اہم علاقائی اتحادی اسد کے خاتمے کا جشن منائے گا۔
لیکن شام پر ایک عسکریت پسند گروپ کے حکمرانی کے امکانات ممکنہ طور پر خدشات میں اضافہ کریں گے۔
مرکزی شہر سے فوج کے انخلا کے بعد حمص کے ہزاروں باشندے سڑکوں پر نکل آئے اور ’اسد چلے گئے، حمص آزاد ہے‘ اور ’شام زندہ باد ’ کے نعرے لگا رہے تھے۔
باغیوں نے جشن منانے کے لیے ہوائی فائرنگ کی اور نوجوانوں نے شامی صدر کے پوسٹر پھاڑ دیے، جن کا علاقائی کنٹرول فوج کی جانب سے ایک ہفتے تک جاری رہنے والی پسپائی کے نتیجے میں ختم ہو گیا ہے۔
حمص کے قبضے نے باغیوں کو شام کے اسٹریٹجک مرکز اور ایک اہم شاہراہ چوراہے پر کنٹرول دے دیا ، جس نے دمشق کو ساحلی علاقے سے الگ کر دیا جو اسد کے علوی فرقے کا گڑھ ہے اور جہاں ان کے روسی اتحادیوں کا ایک بحری اڈہ اور فضائی اڈہ ہے۔
حمص کا قبضہ باغی تحریک کی ڈرامائی واپسی کی ایک طاقتور علامت بھی ہے۔ حمص کے کچھ علاقوں کو کئی سال پہلے باغیوں اور فوج کے مابین سخت محاصرے کی جنگ میں تباہ کر دیا گیا تھا۔
لڑائی میں باغیوں کو شکست ہوگئی، جنہیں زبردستی باہر نکال دیا گیا۔ باغیوں نے شہر کی جیل سے ہزاروں قیدیوں کو رہا کر دیا۔
سکیورٹی فورسز دستاویزات جلانے کے بعد عجلت میں وہاں سے چلی گئیں۔
کردوں کی زیر قیادت سیرین ڈیموکریٹک فورسز کے سربراہ مزلوم عبدی نے اتوار کے روز کہا: “ہم شام میں تاریخی لمحات دیکھ رہے ہیں جب دمشق میں آمرانہ حکومت کا خاتمہ ہو رہا ہے۔
یہ تبدیلی جمہوریت اور انصاف پر مبنی ایک نئے شام کی تعمیر کا ایک موقع پیش کرتی ہے، جس میں تمام شامیوں کے حقوق کو یقینی بنایا گیا ہے۔
Comments