جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول مارشل لاء کے مختصر اعلان پر مواخذے سے بچ گئے کیونکہ ان کی حکمراں جماعت کے قانون سازوں نے ووٹنگ کا بائیکاٹ کیا جبکہ اس دوران پارلیمنٹ کے باہر بڑے پیمانے پراحتجاج جاری رہا ۔

یون نے منگل کی رات سویلین حکمرانی کو معطل کرکے اور پارلیمنٹ میں فوج بھیج کر قوم اور بین الاقوامی برادری کو حیران کردیا تھا لیکن قانون سازوں کی جانب سے ان کے حکم نامے کو مسترد کرنے کے بعد انہیں یوٹرن لینے پر مجبور ہونا پڑا۔

حزب اختلاف کی جماعتوں نے مواخذے کی تحریک پیش کی جسے منظور کرنے کے لیے 300 رکنی پارلیمان میں 200 ووٹوں کی ضرورت تھی لیکن یون کی پیپلز پاور پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے تقریباً مکمل بائیکاٹ نے اسے ناکام بنا دیا۔

قومی اسمبلی کے اسپیکر وو ون شیک کا کہنا تھا کہ ووٹ دینے والے ارکان کی تعداد مطلوبہ دو تہائی اکثریت تک نہیں پہنچ سکی جس کے نتیجے میں مواخذے کا ووٹ درست نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ ملک اور دنیا اس پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ اتنے اہم قومی مسئلے پر ووٹنگ بھی نہ ہو سکی۔

اسپیکر نے کہا کہ یہ (ووٹ کا بائیکاٹ) حکمراں جماعت کی جانب سے ”جمہوری عمل میں شامل ہونے میں ناکامی“ کی نشاندہی کرتا ہے۔

ووٹنگ کے بعد پی پی پی نے دعویٰ کیا کہ اس نے شدید تقسیم اور افراتفری سے بچنے کے لئے مواخذے کو روک دیا ہے، حکمران پارٹی کا مزید کہا کہ وہ اس بحران کو زیادہ منظم اور ذمہ دارانہ طریقے سے حل کرے گی۔

پارٹی کے رہنما ہان ڈونگ ہون نے کہا کہ پارٹی نے موثر طورپرصدر یون کے استعفیٰ کا وعدہ لیا ہے اور جب تک ایسا نہیں ہوتا، وہ ”موثر طور پر اپنے فرائض سے الگ ہو جائیں گے“، جس کے بعد ریاستی معاملات چلانے کی ذمہ داری وزیر اعظم اور پارٹی کو مل جائے گی۔

حکمراں جماعت کے اس بیان کے نتیجے میں وہ بڑا احتجاجی ہجوم مایوس ہو گیا – جو پولیس کے اندازے کے مطابق ڈیڑھ لاکھ افراد پر مشتمل تھا جبکہ منتظمین کے مطابق ان مظاہرین کی تعداد 10 لاکھ تھی – جو پارلیمنٹ کے باہر یون کے استعفیٰ کے لیے احتجاج کر رہے تھے۔

حکومتی پارٹی کے ارکان کی جانب سے مواخذے کی تحریک کے لیے ووٹنگ کا بائیکاٹ کے بعد ایوان سے باہرآنے پر مظاہرین نے شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا جبکہ اس دوران بعض نے مایوسی سے آہیں بھریں یا پھر رونے لگے۔

30 سالہ جو آ گیونگ نے کہا کہ اگرچہ ہمیں آج وہ نتیجہ نہیں ملا جس کی ہم نے امید کی تھی، میں نہ تو مایوس ہوں اور نہ ہی دل برداشتہ ہوں کیونکہ ہم بالاخراسے(صدر کا استعفیٰ) حاصل کر لیں گے۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ میں یہاں اس وقت تک آتی رہوں گی جب تک ہم اسے حاصل نہ کر لیں۔

’سیاسی طور پر مردہ‘

اپوزیشن نے پہلے ہی وعدہ کیا ہے کہ وہ بدھ کے روز یون کا دوبارہ مواخذہ کرنے کی کوشش کرے گی اور بہت سے مظاہرین نے آئندہ ہفتے کے آخر تک مظاہرے جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔ اپوزیشن کے رہنما لی جے میونگ نے کہا کہ میں یون سوک یول کا کسی بھی قیمت پر مواخذہ کروں گا، جو جنوبی کوریا کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ مواخذے کی تحریک کے لیے ووٹ سے پہلے 63 سالہ صدر یون نے افراتفری کے لیے معذرت کی، لیکن انہوں نے کہا کہ وہ اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ اپنی پارٹی پر چھوڑیں گے۔

ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں انہوں نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ میں نے عوام کو تشویش اور تکلیف میں مبتلا کیا ہے اور میں اس کے لیے دل سے معذرت خواہ ہوں ۔ گزشتہ تین روز میں یہ ان کا عوام سے پہلا رابطہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ وہ پارٹی کو سیاسی صورتحال کو مستحکم کرنے کے اقدامات سونپیں گے، جس میں میری مدت ملازمت بھی شامل ہے۔

پیپلز پارٹی کے قانون سازوں کی حمایت اس وقت سامنے آئی جب پارٹی کے سربراہ ہان جو منگل کی رات مبینہ طور پر گرفتاری کی فہرست میں شامل تھے، نے کہا تھا کہ یون کو جانا چاہیے۔

پی پی پی کے صرف 3 قانون سازوں آہن چیول سو، کم یس جی اور کم سانگ ووک نے آخر میں ووٹ دیا۔

اوسلو یونیورسٹی میں کورین اسٹڈیز کے پروفیسر ولادیمیر تیکھونوف نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ مواخذے کی تحریک کی ناکامی کا مطلب ہے کہ ایک طویل سیاسی بحران پیدا ہو جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس ایک سیاسی طور پر مردہ صدر ہوگا جو بنیادی طور پر مزید حکومت کرنے سے قاصر رہے گا اور جب تک یون کو ہٹایا نہیں جاتا تب تک ہر ہفتے لاکھوں افراد سڑکوں پر نکلیں گے۔‘

اگر یہ تحریک منظور ہو جاتی تو یون کو آئینی عدالت کے فیصلے تک ڈیوٹی سے معطل کر دیا جاتا۔

جمعے کے روز جاری رائے عامہ کے ایک جائزے کے مطابق صدر کی حمایت میں ریکارڈ کمی کے بعد صرف 13 فیصد رہ گئی ہے۔

’دردناک یادیں‘

اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں سوشیالوجی کے پروفیسر گی ووک شین نے اے ایف پی کو بتایا کہ حکمراں جماعت کی جانب سے ووٹوں کا بائیکاٹ “یون کی مدت ملازمت کے خاتمے میں تاخیر کر سکتا ہے لیکن اسے نہیں روک سکے گا۔

ووٹ سے قطع نظر، پولیس نے یون اور دیگر کے خلاف مبینہ بغاوت کے الزام میں تفتیش شروع کردی ہے۔

منگل کو دیر گئے مارشل لاء کا اعلان کرتے ہوئے اپنے خطاب میں یون نے دعویٰ کیا کہ اس سے ”عوام کی آزادی اور خوشیوں کو لوٹنے والے ریاست مخالف عناصر کا خاتمہ ہوگا“۔

سیکورٹی فورسز نے قومی اسمبلی کو سیل کر دیا، ہیلی کاپٹر چھت پر اترے اور تقریبا 300 فوجیوں نے عمارت کو بند کرنے کی کوشش کی۔

لیکن جب پارلیمانی عملے نے فوجیوں کو صوفوں اور آگ بجھانے والے آلات سے روکا تو کافی ارکان پارلیمنٹ اندر داخل ہو گئے – بہت سے لوگ اندر داخل ہونے کے لئے دیواروں پر چڑھ گئے – اور یون کے اقدام کو مسترد کر دیا۔ دونوں جماعتوں کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ فوجیوں کو اہم سیاست دانوں کو حراست میں لینے کا حکم دیا گیا تھا اور بعد میں اسپیشل فورسز کے سربراہ نے بتایا کہ انہیں ارکان پارلیمنٹ کو ایوان سے نکالنے کے احکامات دیے گئے تھے۔

ماہرین اور قانون سازوں نے قیاس آرائیاں کی ہیں کہ ایلیٹ اسپیشل فورسز کے جوانوں نے خود کو قومی سلامتی کے بجائے کسی سیاسی واقعے میں ملوث ہونے کا پتہ لگانے کے بعد احکامات پر آہستہ آہستہ عمل کیا ہوگا۔

اس واقعے نے جنوبی کوریا کے آمرانہ ماضی کی دردناک یادیں تازہ کر دیں اور اس کے اتحادیوں کو اندھا کر دیا، جس کا پتہ امریکی انتظامیہ کو صرف ٹیلی ویژن کے ذریعے ہی مل رہا تھا۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے جمعے کے روز اپنے کوریائی ہم منصب چو تائی یول کو بتایا کہ وہ ’توقع کرتے ہیں کہ (جنوبی کوریا میں) جمہوری عمل جاری رہے گا۔

Comments

200 حروف