وفاقی حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ صوبائی حکومتیں اکتوبر 2024 کے آخر تک اپنے زرعی انکم ٹیکس قانون میں ترمیم کی ڈیڈ لائن پوری کرنے میں ناکام ہوگئی ہیں۔

وزارت خزانہ کے حکام نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے سامنے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کی مقداری کارکردگی کے معیار اور اسٹرکچرل بینچ مارک پر پریزنٹیشن دی۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ ہر صوبے کو اپنی زرعی انکم ٹیکس قانون سازی اور نظام میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسے چھوٹے کاشتکاروں کے لئے وفاقی ذاتی انکم ٹیکس نظام اور کمرشل زراعت کے لئے وفاقی کارپوریٹ انکم ٹیکس نظام کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ کیا جاسکے تاکہ ٹیکس کا نفاذ یکم جنوری 2025 سے شروع ہوسکے۔

قانون سازی کی ٹائم لائن اکتوبر 2024 کے آخر میں تھی جسے صوبوں نے مؤخر کر دیا۔

حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ پنجاب نے یہ قانون بنایا ہے۔ کے پی کے معاملے میں قانون کی کابینہ نے منظوری دے دی ہے اور اسمبلی میں لانے کا انتظار ہے۔

اس قانون کو بلوچستان کی صوبائی حکومت نے 11 نومبر 2024 کو منظور کیا تھا اور اسمبلی میں پیش کیے جانے کا انتظار ہے۔

سندھ کے معاملے میں ابھی تک کابینہ کی منظوری نہیں لی گئی ہے۔ تاہم ترمیم شدہ قانون پر کام اور تیاری صوبہ سندھ کی جانب سے کی گئی ہے۔

وزارت خزانہ کے حکام کے مطابق حکومت آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کیڑے مار دواؤں اور کھادوں پر پانچ فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) عائد کرے گی۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے سامنے پیش کی گئی دستاویز میں صوبوں سے توقعات کا اظہار کیا گیا ہے۔

وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس بات پر متفق ہیں کہ 18 ویں آئینی ترمیم میں قائم اخراجات کے مطابق حکومت پاکستان کی جانب سے کچھ اخراجات کی ذمہ داریاں صوبائی حکومتوں کو تفویض کی جائیں گی، جن میں اعلی تعلیم، صحت، سماجی تحفظ اور علاقائی پبلک انفراسٹرکچر سرمایہ کاری کے لیے اضافی عطیات شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ صوبے خدمات، پراپرٹی ٹیکس اور زرعی انکم ٹیکس پر سیلز ٹیکس میں اپنی ٹیکس وصولی کی کوششوں کو بڑھانے کے لیے اقدامات کریں گے۔

Comments

200 حروف