بم دھماکے، فائرنگ کے واقعات، میزائل حملے۔ یہ سب قاتل ہیں۔ جب ایسا ہوتا ہے تو ہنگامہ برپا ہوجاتا ہے، خوف و ہراس پھیلتا ہے، ہنگامی اجلاس ہوتے ہیں اور سخت اقدامات کیے جاتے ہیں۔

جیسا کہ ہونا چاہیے۔ مگر ایک ایسا قاتل کیسا ہوگا جو دھماکے کی آواز کے بغیر ہی آپ کو مار ڈالے؟ ایک ایسا قاتل جو آپ کو چھوئے بغیر آپ کو مفلوج کردے؟ ایک ایسا قاتل جس کی شناخت ظاہر ہو لیکن کوئی اسے پکڑے ہی نہیں؟ ایک ایسا قاتل جو لوگوں کو مار رہا ہو مگر اس کا تعاقب کرنے والا کوئی نہ ہو؟ ایسے قاتل تو جیمز بانڈ کی فلموں میں ہوتے تھے جہاں عیار قاتل چھپ کر کام کرتے اور آخرکار جیمز بانڈ انہیں پکڑ لیتا۔

ایسے قتل کے لیے ایک نئی اصطلاح ہے یعنی ’دھند میں مرنا‘۔ دنیا بھر میں تقریبا 7 ملین لوگ دھند سے متعلقہ عوامل کے سبب مر جاتے ہیں۔ چونکہ دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ شہروں میں لاہور مسلسل تین بڑے شہروں میں شامل رہا ہے تو مضمون لکھتے وقت صرف اس شہر میں ایک لاکھ لوگ اس شہر میں دھند کی وجہ سے مر سکتے ہیں۔

ایک زمانے میں لاہور باغات کا شہر ہوا کرتا تھا۔ اپنے بچوں کو اس شاندار ماضی کے بارے میں بتانے کی کوشش کریں۔ باغات کے نام لے لیجئے: مہابت خان کا باغ، نولکھا گارڈن، باغ دارا، انگوری باغ، گلابی باغ، بادامی باغ، چاہ میراں میں راجہ تیجا سنگھ کا باغ، شالامار روڈ پر راجہ دینا ناتھ کا باغ، شاہ عالم گیٹ کے قریب بھائی مہا سنگھ کا باغ۔ بچے اس بات کا مذاق اڑانے لگیں گے اور ہنسنے لگیں گے کیوں کہ انہیں لگے گا یہ ہمارے تخیل کا مجموعہ ہے۔

یہاں تک کہ شالامار گارڈن، لاہور زولوجیکل گارڈن، انارکلی گارڈن اور منٹو پارک (اقبال پارک) جیسے مشہور مقامات بھی انڈر پاسز اور اوور پاسز کا شکار ہیں۔ دریائے راوی کبھی ایک عظیم پکنک اسپاٹ ہوا کرتا تھا جس کے قریب باغات تھے۔ دریائے راوی اب گندگی کا ڈھیر بن چکا ہے۔

مرزا کامران کا باغ، جو مغلیہ بادشاہ مرزا کامران نے بنوایا تھا، کبھی دریا راوی کے قریب ایک شاندار سبز منظر پیش کرتا تھا۔ آج وہ باغ کھنڈرات میں بدل چکا ہے۔ یہ کھنڈرات نہ صرف تاریخ اور ثقافت کے زوال کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ یہ شہر کے زوال کو بھی بیان کرتے ہیں۔ یہ سب کیا اور کیوں ہوا ہے اور کیوں کسی کو اس فضا کی بے توقیری کی پرواہ نہیں جس میں ہم سانس لیتے ہیں اور زندہ رہتے ہیں۔

1- تیز اور منافع بخش سیاست — دھند اور آلودگی کا انحصار حکومتی پالیسیوں پر ہے۔ طرز حکمرانی حکومت پر منحصر ہے اور حکومت کرنے کا انحصار انتخابات پرہے۔ پاکستان میں انتخابات پیسے پر منحصر ہے۔ پیسہ منصوبوں پر منحصر ہے۔ منصوبے پالیسی پر منحصر ہیں۔ پالیسی سیاستدانوں پر منحصر ہے۔ اور یوں یہ ایک بدترین دائرہ تشکیل پاتا ہے جو آلودہ ذہنیتوں سے جنم لیتا ہے۔

اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے لوگوں کی ذہنی اور فکری دھند کی وجہ سے قتل کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ ماحولیات عموماً اور دھند خصوصاً ووٹ حاصل کرنے کے مسائل نہیں ہیں۔ ”ترقی“ جیسا کہ یہ کہتے ہیں، سڑکوں، انڈرپاسز اور سگنل فری کوریڈورز پر مرکوز ہے۔

یہ بڑے بجٹ والے، بڑے کمیشن والے منصوبے ہیں جو جیبیں اور ووٹ دونوں بھرتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کی وزارت سیاستدانوں کو دیا جانے والا فیشن کا سامان سمجھا جاتا ہے جو دنیا بھر کے سفر اور کانفرنسوں میں شرکت کرنا پسند کرتے ہیں۔ ہر سال وہی بے کار اقدامات، جیسے اسکولز، مارکیٹیں بند کرنا اور لوگوں سے ماسک کے بغیر باہر جانے سے گریز کرنے کی درخواست کرنا، کیے جاتے ہیں۔

اس سال تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں کیونکہ اے کیو کی سطح انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ 300 کی سطح خطرناک سمجھی جاتی ہے مگر لاہور میں یہ 1000 سے زائد اور ملتان میں 2000 سے زائد کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔ یہ اب خطرناک نہیں بلکہ تباہ کن ہے. بڑے پیمانے پر تعمیراتی سرگرمیوں نے سبزہ ختم کردیا ہے ہے اور اس کی جگہ آلودگی نے لے لی ہے۔ لاہور کے تمام باغات اور ہریالی کو تباہ کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے جنگلات کا رقبہ 3 فیصد رہ گیا ہے جبکہ مطلوبہ سطح 25 فیصد ہے۔

2- جہالت نعمت نہیں: جہالت ہمیشہ نادیدہ ہیرا پھیری کی سرپرستی کرتی ہے۔ ناخواندہ لوگ کیا نہیں دیکھ سکتے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ غیر تعلیم یافتہ افراد کے لیے جو چیز ان پر اثر انداز نہیں ہوتی وہ موجود نہیں ہوتی۔ اسی لیے جب میٹرو بسیں اور اورنج ٹرینیں متعارف کرائی جاتی ہیں تو وہ دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ ترقی ہو رہی ہے۔ اگر یہ سیاسی کھلونے درختوں اور گرین بیلٹس کی قیمت پر بن رہے ہیں تو کسے پرواہ ہے؟ دھند کچھ تعلیم یافتہ طبقے کو اس لیے بولنے پر مجبور کرتی ہے کیونکہ یہ ان کی نقل و حرکت اور بچوں کی تعلیم کو متاثر کرتی ہے۔

بصورت دیگر جب تک یہ ان کے کام اور تفریح پر اثر انداز نہیں ہورہی سب ٹھیک ٹھاک ہے تاہم حقائق چونکا دینے والے ہیں۔ محکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب کی 2022 کی ایک رپورٹ کے مطابق لاہور کے لوگ اب سال کے صرف 17 دن صاف ہوا میں سانس لیتے ہیں۔ یہ صرف برا نہیں بلکہ خوفناک ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ سموگ چند مہینوں کا رجحان ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ ہوا میں خارج ہونے والے زہریلے کیمیکلز کے مرکب کو ’پی ایم‘ یا ’خاص مادہ‘ کہا جاتا ہے۔

خطرناک سطح کی پیمائش پی ایم 2.5 ہے۔ پی ایم 2.5 کو قلیل مدت (کم از کم 24 گھنٹے) کیلئے قبل از وقت اموات، دل یا پھیپھڑوں کی بیماریوں کی وجہ سے اسپتال میں داخلوں میں اضافہ، تیز اور دائمی برونکائٹس، دمہ کے حملے، ایمرجنسی روم کی وزٹس، امراض تنفس کے علامات اور سرگرمیاں محدود کرنے کا سبب بتایا گیا ہے۔ طویل المدت (مہینوں سے سالوں تک) پی ایم 2.5 کو قبل از وقت اموات سے جوڑا گیا ہے اور یہ خاص طور پر دل یا پھیپھڑوں کے دائمی امراض میں مبتلا افراد اور ایسے بچوں کا شکار کرتا ہے جن کے پھیپھڑوں کی نشونما کم ہوتی ہے۔

یہ حقیقت کہ تقریبا ساڑھے گیارہ ماہ سے لاہور میں زہریلے مادے خارج ہو رہے ہیں، بچوں اور بڑوں میں پھیپھڑوں سے متعلق مسائل کے مستقل اور مسلسل واقعات کی وضاحت کرتا ہے۔ ایک ایسی حقیقت جس کا اندراج کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی کو اس کی پرواہ ہے۔

3- سول سوسائٹی کی بے حسی - سول سوسائٹی کی غیر فعالیت بھی ایک وجہ ہے کہ ہر سال اسموگ تباہ کن سطح تک پہنچ جاتی ہے۔ این جی اوز اور پروفیشنلز پر مشتمل سول سوسائٹی کے شعبے نے کوشش کی ہے لیکن یہ ناکافی ثابت ہوئی ہے۔ اورنج ٹرین کیس وکلاء نے جیت لیا تھا لیکن اس پر عمل درآمد معمولی تھا۔

قواعد و ضوابط کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ فصل جلانے سے لے کر بھٹہ بنانے تک، پارلیمنٹ میں موجود مفاد پرست گروہوں کی طرف سے قوانین کو نافذ کرنے کی حکومتی صلاحیت پر سمجھوتہ کیا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال الیکٹرک وہیکل پالیسی تھی جو 2022 میں پارلیمنٹ میں منظور ہونے والی تھی۔ یہ پالیسی ایندھن کی معیار کے حوالے سے دھند کے بڑے اسباب ختم کرنے کی کوشش تھی۔

2020 میں درآمد شدہ ایندھن کو یورو-2 سے یورو-5 کوالٹی میں تبدیل کرنے کا قانون منظور کیا گیا تھا جو ماحولیاتی طور پر قابل قبول سطح ہے اور مقامی ریفائنریوں کو بھی اسے تبدیل کرنے کا ٹائم فریم دیا گیا تھا۔ اگلی حکومت نے اس پر کتنا عمل درآمد کیا ہے اس کا اندازہ کسی کو بھی نہیں ہے۔

لاہور کی خوبصورتی ایک پرانی کہانی ہے۔ سارے باغ کہاں چلے گئے؟ سارے درخت کہاں چلے گئے؟ یہ تاریخی شہر تھا۔ یہ ثقافت کا شہر تھا۔ اسی طرح یہ آرٹ کا شہر تھا۔ یہ فن تعمیر کا شہر تھا۔ آپ صرف اسموگ سے گھری ہوئی عمارتوں کی ہلکی سی جھلکیاں دیکھ سکتے ہیں۔ جب آپ نیچے دیکھتے ہیں تو آپ کو سڑکوں اور زیر تعمیر گزرگاہوں سے کیچڑ اڑتا ہوا نظر آتا ہے۔ جب آپ اوپر دیکھتے ہیں تو آسمان پیلا بھورا ہوتا ہے۔

اکتوبر اور نومبر کے مہینے کبھی جنت کے مناظر پیش کیا کرتے تھے، یہ وہ وقت تھا جب لوگ باہر کی سرگرمیوں میں مشغول ہوتے تھے۔ خاندان کے درمیان میل میلاپ ہوا کرتا تھا۔ دوستوں کی باربی کیو محفلیں ہوا کرتی تھیں۔ بچوں کے کیلئے کھیلوں کے میلے لگتے تھے۔ لاہور کو کیا ہو گیا؟ چھوڑ دیا اور نظر انداز کر دیا گیا، اس کے موجودہ رہنماؤں نے خوشی خوشی سوئٹزرلینڈ کی ماحولیاتی طور پر محفوظ سیاحت کی طرف رخ کر لیا ہے۔ یہ وہ آلودہ ذہنیتیں ہیں جنہوں نے اس شہر اور اس کے لوگوں کو بیماری، اداسی اور مایوسی کے شہر میں تبدیل کر دیا ہے۔

Comments

200 حروف