وزیراعظم شہباز شریف 11 نومبر کو سعودی عرب جائیں گے جہاں وہ سعودی عرب میں ہونے والی دوسری مشترکہ عرب اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کریں گے۔

دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ سربراہ اجلاس میں وزیراعظم فلسطین کاز کے لیے پاکستان کی مکمل حمایت کا اعادہ کریں گے اور غزہ میں نسل کشی کے فوری خاتمے کا مطالبہ کریں گے۔

ترجمان نے کہا کہ وزیراعظم فوری اور غیر مشروط جنگ بندی اور خطے میں جاری اسرائیلی مہم جوئی کے فوری خاتمے کا مطالبہ کریں گے جو مشرق وسطیٰ کے ممالک کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔

ممتاز زہرہ بلوچ نے مزید کہا کہ پاکستان 4 جون 1967 کی سرحدوں پر ایک آزاد ریاستِ فلسطین کے قیام کا بھی مطالبہ کرے گا، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ سربراہی اجلاس مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر بات چیت کے لیے سعودی حکومت کی جانب سے منعقد کیا جارہا ہے اور یہ گزشتہ سال 11 نومبر کو ریاض میں ہونے والے مشترکہ عرب اسلامی ہنگامی اجلاس کا تسلسل ہوگا جس میں غزہ اور دیگر مقبوضہ علاقوں کی صورتحال پر غور کیا گیا تھا۔

اجلاس میں عرب لیگ اور او آئی سی کے رکن ممالک کے سربراہان مملکت اور حکومتوں اور اعلیٰ حکام کی شرکت متوقع ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ اجلاس کے موقع پر وزیراعظم عرب لیگ اور او آئی سی کے رکن ممالک کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں گے۔

وزیراعظم نواز شریف نے گزشتہ ہفتے سعودی عرب کے دورے کے دوران سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی وزیر برائے سرمایہ کاری خالد الفالح سے ملاقاتیں کیں اور سرمایہ کاری سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا۔

بعد ازاں سعودی وزیر سرمایہ کاری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں ہونے والی مختلف مفاہمتی یادداشتوں (ایم او یوز) کو 27 سے بڑھا کر 34 کردیا گیا ہے جس کے نتیجے میں متوقع سرمایہ کاری کا حجم بھی 2.2 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2.80 ارب ڈالر ہوگیا ہے۔

بدھ کو باخبر ذرائع نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ وزیراعظم نے وزیر برائے توانائی سردار اویس خان لغاری کی قیادت میں ایک خصوصی وفد سعودی عرب بھیجا ہے تاکہ 2.8 ارب ڈالر مالیت کی مفاہمتی یادداشتوں کو قانونی طور پر پابند معاہدوں میں تبدیل کیا جا سکے اور کے-الیکٹرک کے دیرینہ مسائل کو حل کیا جا سکے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور ریاض کے درمیان ایک اہم مسئلہ کے الیکٹرک کے غیر حل شدہ مسائل ہیں جو سعودی سرمایہ کاری کے مستقبل کے امکانات کو متاثر کر رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ سعودی وفد کے دورے کے دوران بھی کے الیکٹرک کا معاملہ اٹھایا گیا تھا۔

Comments

200 حروف