کاروبار اور معیشت

پاکستان نومبر تک قومی ائر لائن کی نجکاری کا ارادہ رکھتا ہے، وزیرخزانہ

  • پی آئی اے کی نجکاری میں تاخیر دو وجوہات کی بنا پر ہوئی، محمد اورنگزیب
شائع October 24, 2024

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان آئندہ ماہ نومبر میں اپنی قومی ائر لائن کی نجکاری اور اسلام آباد کے بین الاقوامی ائرپورٹ کی آؤٹ سورسنگ کو حتمی شکل دینے کیلئے پرامید ہے ۔

رواں سال کے اوائل میں عہدہ سنبھالنے والے وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے واشنگٹن میں ورلڈ بینک کے ہیڈ کوارٹر میں اے ایف پی سے بات کی جہاں وہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک کے سالانہ اجلاس میں شرکت کررہے ہیں۔

قبل ازیں اپریل میں اے ایف پی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں محمد اورنگ زیب نے کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ائرلائنز (پی آئی اے) کی نجکاری جون 2024 تک مکمل ہوجائے گی۔

بدھ کو خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ 5 ماہ کی تاخیر کی دو بڑی وجوہات تھیں: میکرو اکنامک استحکام کو یقینی بنانا اور دلچسپی رکھنے والے فریقوں کی مناسب جانچ پڑتال کرنا۔

وزیرخزانہ نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی غیر ملکی سرمایہ کار، یا مقامی سرمایہ کار، جو بڑی رقم لگانے والے ہوتے ہیں، آتے ہیں، تو وہ یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ بنیادی ڈھانچہ موجود ہے،“ اور ان کا اشارہ میکرو اقتصادی عوامل کی جانب تھا۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ پی آئی اے اور اسلام آباد ائرپورٹ کے لیے ممکنہ بولی دہندگان کو بھی جانچ پڑتال کی ضرورت ہے جو تاخیر کی ایک اور وجہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ لہذا آخر کار یہ کابینہ ہی ہے جس نے ٹائم لائن میں توسیع کی منظوری دی تاکہ لوگ یہ درخواستیں جمع کرانے سے پہلے اپنی جانچ پڑتال کرسکیں۔

ڈیفالٹ کے دہانے پر

محمد اورنگزیب نے کہا کہ موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے پر پاکستان منافع اور ڈیویڈنڈ کی ادائیگیوں میں تاخیر کا شکار تھا لیکن میکرو اقتصادی استحکام پر پیشرفت کے بعد اس مسئلے کو حل کرنے کے اقدامات کیے گئے۔

2022 کے مون سون کے تباہ کن سیلاب اور دہائیوں کی بدانتظامی کے ساتھ عالمی معاشی بحران کے بعد سیاسی افراتفری کے باعث ملک گزشتہ سال ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ گیا تھا۔

غیر ملکی زرمبادلہ کو محفوظ رکھنے کے لیے درآمدی پابندیوں سمیت دیگر حکومتی سخت اقدامات کے درمیان مرکزی بینک کی جانب سے بلند شرح سود برقرار رکھنے کے بعد افراط زر کی شرح 38 فیصد تک پہنچ گئی تھی لیکن اس کے بعد یہ کم ہو کر 7 فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے۔

گزشتہ ماہ آئی ایم ایف نے 7 ارب ڈالر کے قرض کی منظوری دی تھی جو 1958 کے بعد پاکستان کی جانب سے اس طرح کا 24 واں قرض ہے۔

محمد اورنگزیب نے ملک کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور پاکستانی روپے کے استحکام پر پیشرفت کا ذکر کیا، جس میں سال 2020 کے بعد سے امریکی ڈالر کے مقابلے میں تقریبا 65 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس میکرو اکنامک استحکام اور اپنے ذخائر کی تعمیر کی بنیاد پر مئی اور جون میں ہم نے اپنے موجودہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو 2 ارب ڈالر سے زیادہ کی ادائیگی کی۔

آئی ایم ایف کے مطابق اس وقت پاکستان کا مجموعی سرکاری قرضہ جی ڈی پی کا 69 فیصد یا تقریبا 258 ارب ڈالر ہے۔

’سیچوریشن پوائنٹ‘

پاکستان کے سرکاری اداروں (ایس او ایز) کی نجکاری کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کا معاہدہ اس کی ٹیکس بیس بڑھانے اور ملک کے توانائی کے شعبے میں اصلاحات پر بھی منحصر ہے۔

محمد اورنگ زیب نے اے ایف پی کو بتایا کہ تینوں اہم مسائل کے درمیان ایک مشترکہ موضوع ہے۔

انہوں نے کہا، ”ٹیکس، بجلی، سرکاری ادارے: یہاں چوری، کرپشن اور وسائل کا ضیاع ہے، ٹھیک ہے؟ اور ہمیں ان سب مسائل سے نمٹنا ہے۔“

تاہم انہوں نے میڈیا کی ان خبروں کو مسترد کردیا کہ حکومت اپنے ٹیکس بیس کو وسیع کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ مالی سال ٹیکس وصولی میں 29 فیصد اضافہ ہوا جو سابقہ نگران حکومت کے ساتھ مل کر تھا اور رواں مالی سال اس میں مزید 40 فیصد اضافے کا ہدف رکھا گیا تھا۔

ایک ایسا ملک جس کی آبادی 240 ملین سے زیادہ ہے اور جہاں زیادہ تر ملازمتیں غیر رسمی شعبے میں ہیں،2022 میں صرف 5.2 ملین نے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرائے گئے۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ ادائیگی نہیں کررہے، انہیں ادائیگی شروع کرنی چاہیے کیونکہ ہم ان لوگوں کے لیے بھرپور سطح پر پہنچ چکے ہیں جو ادائیگی کررہے ہیں۔“

انہوں نے مزید کہا تنخواہ دار طبقہ اور مینوفیکچرنگ انڈسٹری بھرپور سطح پر پہنچ چکی ہے اور یہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کچھ شعبوں میں بہتر ٹیکس وصولی کے لیے بھی پرعزم ہے، جن میں رئیل اسٹیٹ، خوردہ، خوردہ تقسیم کنندگان، اور زراعت شامل ہیں۔

Comments

200 حروف