کیا ٹیلنٹ ہے۔ شاندار، شاندار۔ یہ کچھ ایسی تعریفیں ہیں جو ہم عام طور پر اس وقت سنتے ہیں جب ہم غیر معمولی صلاحیت کے حامل کسی کھلاڑی یا پرفارمر کو دیکھتے ہیں۔

بیشتر شعبوں میں ٹیلنٹ کی تلاش اولین ترجیح ہوتی ہے۔ سائنس میں ٹیلنٹ کی تلاش اہم ہوتی ہے کیونکہ نئی اختراعات اور انکشافات ان تحقیقاتی اداروں کی صلاحیتوں پر منحصر ہیں۔ تفریحی صنعت میں صلاحیت کا مطلب غیر معمولی اداکار، ہدایت کار، اور سنیماٹوگرافر وغیرہ ہیں۔

کھیلوں میں ٹیلنٹ کا مطلب مستقبل کا ایک میگا اسٹار بنانا ہوتا ہے۔ کارپوریٹ تنظیموں میں ٹیلنٹ کی تلاش اور اسے برقرار رکھنا انسانی وسائل کی تمام سرگرمیوں کا مرکز بنتا ہے۔ ٹیلنٹ کی تلاش ایک بہت اہم عمل ہے جس میں ممکنہ افراد کو ایونٹس، جائزے اور ماہرین کی رائے کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے۔

بیشتر ماہرین کا خیال ہے کہ 20 فیصد ملازمین 80 فیصد کام کرتے ہیں، اس لیے ٹیلنٹ کی تلاش میں وقت صرف کرنا جائز ہے۔ یہ وہ ”A“ پرفارمرز ہیں جو چالاکی سے سوچتے ہیں اور اپنے شعبے میں غیر معمولی کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تو اصل میں ٹیلنٹ کیا ہے؟ کیمبرج ڈکشنری اسے ”کسی چیز میں اچھا ہونے کی فطری مہارت یا صلاحیت، خاص طور پر بغیر سکھائے“ کے طور پر بیان کرتی ہے۔

ٹیلنٹ کا مکمل تصور یہ ہے کہ کوئی شخص ابتدائی طور پر ایک ایسی مہارت ظاہر کرتا ہے جسے حاصل کرنے میں دوسروں کو کافی وقت لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک نوجوان لڑکا جو موسیقی کے آلے بجاتا ہے، حیرت انگیز بن جاتا ہے۔ یا ایک نوعمر تیز گیند باز جو نیٹ میں 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند بازی کرتا ہے راتوں رات ہی سنسنی پھیلادیتا ہے۔

نوجوان آئی ٹی جینئس جو نئے ڈیزائن تخلیق کرتا ہے، ”جینئس“ بن جاتا ہے۔ کیا یہ مہارت دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے چمکتی ہے یا یہ جلدی ملی شہرت ”پالنے والے بچے“ کے ساتھ نبردآزما ہونے کے کئی چیلنجز کو چھپاتی ہے؟ یہ مسئلہ واضح اور موجود ہے اور اس میں کچھ اصلاح کی ضرورت ہے:

1- ٹیلنٹ کا مطلب—ٹیلنٹ ایک خاص مہارت میں کسی شخص کی غیر معمولی صلاحیت ہے، جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ حال ہی میں منعقد ہونے والے اولمپک کھیلوں میں اولمپک گولڈ میڈلسٹ ارشد ندیم کی تین بار 90 میٹر سے زیادہ تھرو کرنے کی صلاحیت پر دنیا حیران ہے۔ ہر کوئی اس بارے میں بات کر رہا ہے کہ کیا شاندار ٹیلنٹ ہے۔ ٹیلنٹ کی یہ تعریف اور وضاحت مناسب لیکن محدود ہے۔

صلاحیت کی تلاش ایک ایسے عقیدے پر مبنی ہے جو قیادت کے نظریے سے متاثر ہے جہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ لیڈرز پیدا ہوتے ہیں۔ آپ کی فطری خصوصیات پیدائش کے وقت ہی متعین ہوتی ہیں۔ آپ ان کی بنا پر ممتاز ہوتے ہیں اور جیسے جیسے آپ آگے بڑھتے ہیں، آپ نمایاں ہو جاتے ہیں۔ تو ٹیلنٹ کی تلاش کا تصور ایسے لوگوں کو تلاش کرنے کے بارے میں ہے جن میں یہ فطری امکان موجود ہوں۔ اس پہلو پر توجہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ ٹیلنٹ کو دیکھا، شناخت کیا اور نکھارا جا سکتا ہے۔ تاہم کیا ٹیلنٹ قیادت کی خوبیوں کے مترادف ہے؟ کیا ٹیلنٹ رکھنے والا ہر شخص اسٹار بن سکتا ہے؟ کیا ٹیلنٹ ایسی چیز ہے جو یا تو آپ میں ہوتی ہے یا نہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کی گہرائی میں جا کر جانچ پڑتال کی ضرورت ہے۔

2- تصور و حقیقت — تصور یہ ہے کہ ”ایک اسٹار پیدا ہوتا ہے“ چمکتا ہے تاکہ اسے چنا جا سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک اسٹار پیدا ہوتا ہے لیکن اس کی چمک محض وہم ہوسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک ستارہ پیدا ہوتا ہے اور اپنی ہی چمک کا شکار بن جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسٹار صرف ایک شوٹنگ اسٹار( شہاب ثاقب ) ہوسکتا ہے۔ یہ حقیقت کا پہلو ہے۔ایگزیکٹیو کوچنگ میں کارپوریشنز کی جانب سے کوچنگ کے لیے بھیجے جانے والے کوچز کی ایک اہم کیٹیگری یہ اسٹار ٹیلنٹ ہے جو دوسروں کے لیے چمکنے کے بجائے اپنے جلنے کی وجہ سے چمک رہا ہے۔

ایک کے بعد ایک کمپنیاں انہیں پرکشش مراعات دیکر کام پر رکھ لیتے ہیں، وہ واقعی غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور جلد ہی کمپنی کو اپنا حیرت انگیز بچہ ہونے کی حیثیت پر یقین دلاتے ہیں تاہم جیسے ہی انہیں ”فاسٹ ٹریک“ پر رکھا جاتا ہے دراڑیں ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔

یہ ایک کلاسک کیس ہے کہ کسی شخص کو ٹیم کا سربراہ بنادیا جاتا ہے اور پھر معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص محکمے یا کمپنی کو نقصان پہنچارہا ہوتا ہے۔

یہ مفروضہ کہ ایک باصلاحیت ابھرتا ہوا ستارہ بھی ایک ایسا شخص ہے جو اعلی سطح پر قیادت یا کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہے غلط اور گمراہ کن ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر آئی ٹی کمپنیاں اس مخمصے کا سامنا کر رہی ہیں اور سوچ رہی ہیں کہ وہ جو ٹیلنٹ ”عفریت“ سامنے لائے ہیں انہیں کیسے سنبھالا جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ ٹیلنٹ جتنا زیادہ ہو “ سب کچھ جاننے“ کی ذہنیت اتنی ہی زیادہ ہوگی جبکہ لوگوں کو سننے اور مصروف رکھنے کی صلاحیت اتنی ہی کم ہوگی۔ اسی لیے انفرادی طور پر وہ شاندار ہو سکتے ہیں لیکن جب انہیں ٹیمیں دی جاتی ہیں تو وہ ناکام ہو جاتے ہیں۔ ٹیموں کی قیادت کے لیے ضروری ہے کہ آپ ان کے ذریعے کام کروائیں، اور یہ آسان نہیں ہے۔ کھیلوں میں، ہم نے حال ہی میں خیالی چیزوں کو ایک افسوسناک حقیقت میں تبدیل ہوتے دیکھا ہے۔

کرکٹ ایک ٹیم کا کھیل ہے۔ یہ دماغ کا کھیل ہے۔ ہم نے تیز گیند بازی میں کچھ غیر معمولی ٹیلنٹس کو ابھرتے دیکھا۔ شاہین، نسیم اور حارث رؤف کا تین رکنی “اتحاد “ سپر اسٹارز کے طور پر جانا گیا اور شاہین کو ٹیم کا کپتان بنایا گیا۔

جیسا کہ بین الاقوامی کرکٹ کے تقاضے بڑھتے گئے، یہ ستارے مطلوبہ فٹنس اور حکمت عملی کی سطح تک پہنچنے میں ناکام رہے تاکہ عالمی حریفوں کو زیر کر سکیں۔ ان کی رفتار 120 اور 130 کی ہندسوں میں آ گئی، اور ٹیم مخالف بلے بازوں کو آؤٹ کیے بغیر ہی 800 سے زائد رنز دے رہی ہے۔

3- ہمت کا عنصر— وہ کیا چیز ہے جو صلاحیت کو مزاج میں ڈھال سکتی ہے؟ کامیاب افراد وہ کیا چیزیں کرتے ہیں جو انہیں وہاں لے جاتی ہیں جہاں دوسرے نہیں پہنچ پاتے؟ یہ اس بات پر توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت ہے کہ آپ کے پاس ”کیا نہیں ہے“ اور جب تک آپ اسے دوسروں سے بہتر نہ کرلیں۔ صلاحیت اس بات پر توجہ ہے جو آپ کے پاس ہے۔ ہمت روزمرہ کی مشکلات پر قابو پانے کے لیے زبردست مستقل مزاجی اور عزم کا مظاہرہ کرنے پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ ہمت ایک عزم ہے۔ ہمت ایک نظم و ضبط ہے۔ ہمت ایک کوشش ہے۔ ہمت توجہ ہے۔ ہمت ثابت قدمی ہے۔ ہمت ایک ذہن سازی ہے۔ ہمت دل کی کیفیت ہے۔ ونسٹن چرچل، جو لکنت کے ساتھ پیدا ہوئے اور تاریخ کے سب سے بڑے مقررین میں سے ایک بنے، سے لے کر بی ایتھوین، جو بہرے تھے اور شاندار سمفنیوں کی کمپوزنگ کی، ہمت کی مثالیں ہر جگہ موجود ہیں۔

باہمت ہونے کے لیے مستقل مزاج ہونا ضروری ہے۔ باہمت ہونے کے لیے اگلی سطح تک سخت محنت کرنا ضروری ہے۔ باہمت ہونے کے لیے اپنے کسی بھی حریف سے زیادہ کام کرنا اور مشق کرنا ضروری ہے۔ سادہ الفاظ میں یہ خالص اور مستقل کوشش، تربیت،اور ایک منظم ہدف کے حصول کے لیے سخت محنت ہے۔ باہمت لوگ باصلاحیت افراد کی طرح سپر اسٹار نہیں ہوتے لیکن یہی ان کی طاقت ہے۔

ان کا رویہ سیکھنے کا ہوتا ہے اور اسی لیے وہ آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ بہت سی بار، ٹیلنٹڈ افراد اپنی چمک میں اتنے مگن ہوتے ہیں کہ ان کا عروج اور زوال دونوں ہی یکسر اچانک ہوتے ہیں۔ مگر ہمت برقرار رہتی ہے۔

کسے یاد نہیں ہوگا جہانگیر خان کی کہانی، جنہیں بچپن میں ہی نظرانداز کر دیا گیا تھا۔ ایک شرمیلا لڑکا، جو بچپن میں ہیرنیا سے متاثر تھا جسے دوڑنے اور سیکھنے میں مشکلات کا سامنا کرتا تھا۔ اس نے 555 مسلسل میچز جیت کر ایک ریکارڈ قائم کیا۔ مستقل مزاجی، تسلسل اور عزم کی بدولت ہی پائیدار کامیابی ممکن ہے۔ کاپی رائٹ: بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف