وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے 15 اکتوبر کو احتجاج کی کال کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ’سیاسی دہشت گردی‘ قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ اس احتجاج کا مقصد معاشی ترقی میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
احسن اقبال نے پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہ اجلاس کی میزبانی کے موقع پر احتجاج کے وقت پر سوال اٹھایا اور کہا کہ اجلاس کی میزبانی ملک کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی میں دہشت گردی اور سیاسی دہشت گردی کے احتجاج کے مطالبات مماثلت رکھتے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ دونوں واقعات ایک ہی اسکرپٹ رائٹر کی پیداوار ہیں جو ایک طرف دہشت گردوں کو دھماکہ خیز حملوں کے لئے استعمال کر رہے ہیں اور دوسری طرف پی ٹی آئی کو انتشار پھیلانے اور پاکستان کے اہم مفادات کو نقصان پہنچانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔
انہوں نے تبدیلی اور ترقی کے خواہشمند پی ٹی آئی کے سپورٹرز پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی پارٹی کے اقدامات سے ہونے والے نقصانات کو پہچانیں۔
احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان تباہ کن سیاست کا متحمل نہیں ہوسکتا، پی ٹی آئی کے بانی کی جیل میں قید کو افرا تفری کا جواز نہیں بنایا جاسکتا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن وہ کبھی ریاست کے خلاف نہیں لڑی۔
انہوں نے کہا کہ بینظیر بھٹو کو شہید کیا گیا اور ذوالفقار بھٹو کو پھانسی دی گئی لیکن پاکستان پیپلز پارٹی نے کبھی ریاست کے خلاف جنگ نہیں لڑی۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ ماضی کی طرح پاکستان کے عوام اس بر بھی اس منفی سیاست کو مسترد کردیں گے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ قیادت کی توجہ معاشی استحکام کے ذریعے نوجوانوں کے روشن مستقبل کو محفوظ بنانے پر مرکوز ہے اور 2047 میں جب پاکستان اپنی صد سالہ سالگرہ منائے گا تو ہم اپنا سر بلند رکھنا چاہتے ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ 15 اور 16 اکتوبر کو شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان مملکت کے اجلاس کی میزبانی کرنا پاکستان کے لیے فخر کا لمحہ ہے جو ملک کے لیے ایک اہم سفارتی کامیابی ہے۔
حکومت نے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کی سیکورٹی کے لیے وفاقی دارالحکومت میں پاک فوج تعینات کردی ہے۔
گزشتہ ہفتے بھارتی وزارت خارجہ نے تصدیق کی تھی کہ سبرامنیم جے شنکر رواں ماہ کے اواخر میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان کا دورہ کریں گے۔
تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آیا وہ اس موقع پر کسی پاکستانی عہدیدار سے ملاقات کریں گے یا نہیں۔
Comments