کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر مونس علوی نے رواں ہفتے کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) سے خطاب کرتے ہوئے کراچی میں دیگر بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کے داخلے کی حمایت کی اور کہا کہ صحت مند مقابلے سے ایک ایسا ماحول پیدا ہوگا جس میں کارکردگی کا منصفانہ جائزہ لیا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک کو صرف کراچی تک محدود نہ رکھا جائے اور اسے پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی اپنے آپریشنز کو توسیع دینے کی اجازت دی جائے۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ کے الیکٹرک ملک کے گردشی قرضوں کے معاملے میں ملوث نہیں ہے، پھر بھی کراچی کے رہائشی یہ اضافی چارجز ادا کرنے پر مجبور ہیں۔

انہوں نے تاجر برادری پر زور دیا کہ وہ اس طرح کے سرچارجز کے خاتمے کے لیے کے الیکٹرک کے ساتھ مل کر کام کریں اور ان خدشات کو حکومت، وزارت توانائی اور پاور ریگولیٹر نیپرا کے سامنے اٹھائیں۔ مونس علوی نے نیٹ میٹرنگ میں کمپنی کی کامیابیوں پر بھی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ اس شعبے میں کے الیکٹرک کی کارکردگی بہترین ہے۔

کاٹی کی انتظامیہ نے دیگر پاور کمپنیوں کو کراچی میں آپریٹ کرنے کی اجازت دینے کے خیال کی حمایت کی تاکہ مسابقت پیدا کی جاسکے اور صارفین کے لئے خدمات کو بہتر بنایا جاسکے۔ کورنگی انڈسٹریل زون 600 میگاواٹ بجلی کے منظور شدہ لوڈ کے ساتھ پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی زون ہے۔

کاٹی نے کراچی کے صنعتی شعبے کو بجلی کی فراہمی میں کے الیکٹرک کے اہم کردار کا اعتراف کیا۔ کے الیکٹرک کو شہر کے بجلی کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لئے 3 ارب روپے کی سرمایہ کاری پر سراہا جب کہ ان شعبوں کی نشاندہی بھی کی گئی جن میں بہتری کی ضرورت ہے۔

کاٹی نے کے الیکٹرک کو بتایا کہ بجلی کی موجودہ قیمت 50 سے 60 روپے فی یونٹ صنعتوں کے لیے ناقابل برداشت ہے، اور کراچی کے صارفین کو اضافی ٹیرف بشمول پی ایچ ایل چارجز کا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے، جو تقریباً 5 روپے فی یونٹ ہے، حالانکہ ان کا ملک کے گردشی قرضے میں کوئی کردار نہیں ہے۔

کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو کی جانب سے یہ انکشاف کہ کمپنی کراچی شہر میں مقابلے کا خیرمقدم کرے گی اور دوسری جانب کے الیکٹرک اپنے آپریشنز کو پاکستان کے دیگر شہروں تک بھی پھیلانا چاہتی ہے،پاکستان کے پیچیدہ پاور سیکٹر کو بہتر بنانے کے لیے نئے حل تلاش کرنے کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔

کے الیکٹرک کو وقتا فوقتا عوام کے غصے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب وفاقی حکومت کی جانب سے بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا جاتا ہے یا شہر میں بڑے پیمانے پر لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ اس کے باوجود، کے الیکٹرک، جو بجلی کی پیداوار، ٹرانسمیشن اور تقسیم کے ساتھ ایک مکمل طور پر مربوط پاور کمپنی ہے، کے پاس بتانے کے لئے ایک کامیاب کہانی ہے۔

کے الیکٹرک کی 2005 میں نجکاری کی گئی تھی۔ اس وقت اس کے ٹی اینڈ ڈی نقصانات 34.2 فیصد تھے ، اور پندرہ سال کے اندر ، نقصانات کم ہوکر 15.3 فیصد رہ گئے ، جو کہ نصف سے زیادہ ہیں۔ اس سنگ میل کو حاصل کرنے کیلئے کمپنی نے نجکاری کے بعد سے ویلیو چین میں 4.1 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ کے الیکٹرک نے 2005 کے بعد سے کوئی آپریشنل سبسڈی نہیں لی ہے۔

کے الیکٹرک کی کارکردگی میں بہتری سے ٹیرف میں کمی کی صورت میں سالانہ 170 ارب روپے کا فائدہ ہوا ہے جب کہ ضائع ہونے والی یونٹس کو بلڈ یونٹس میں تبدیل کرنے سے قومی ٹیکس بیس میں 13 ارب روپے کا سالانہ اضافہ ہوا ہے۔ کے الیکٹرک کے صارفین کی تعداد 2006 میں 1.8 ملین سے بڑھ کر اب 3.4 ملین ہو چکی ہے۔

فروخت ہونے والے یونٹس کی تعداد تقریبا 8.4 گیگا واٹ گھنٹے (8.4 بلین یونٹس) سے بڑھ کر 16.7 بلین یونٹس ہوگئی ہے۔ یہ توسیع کے الیکٹرک کی حوصلہ افزائی پر مبنی سیلز اور مارکیٹنگ کی ٹیم کی لگن سے حاصل کی گئی تھی۔ پاور جنریشن میں بھی بہتری اور اضافہ کیا گیا ہے۔

کمپنی پاور جنریشن مکس میں قابل تجدید توانائی کو شامل کرنے پر کام کر رہی ہے۔ منصوبہ 2030 تک قابل تجدید پیداوار کو موجودہ 100 میگاواٹ سے بڑھا کر 1200 میگاواٹ کرنے کا ہے۔

ایک اور اہم کامیابی سافٹ ویئر پر مبنی کسٹمر سروسز ہے۔ کمپنی کے 10 لاکھ سے زائد صارفین کے اکاؤنٹس ڈیجیٹل ٹچ پوائنٹس ایپ، واٹس ایپ اور ایس ایم ایس پلیٹ فارمز پر فعال ہیں اور ایک لاکھ صارفین پہلے ہی پیپر لیس بلوں پر منتقل ہونے کی رضامندی دے چکے ہیں۔

سرکاری اور نجی شعبے میں پاور سیکٹر کی فراہمی کے درمیان فرق بالکل واضح ہے۔ پاکستان میں نجی شعبے نے جہاں کارکردگی، قابلیت، حکومت کو زیادہ آمدنی اور اپنے صارفین کو اچھی سروس فراہم کی ہے وہیں سرکاری شعبے نے اپنے صارفین کو نااہلی، ناکامی، گردشی قرضے اور مسائل فراہم کیے ہیں۔ ایک بار پھر فیصلہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ کس راستے پر جانا چاہتی ہے۔

ہمسایہ ملک بھارت کو پاکستان کی طرح بجلی کے قوانین، صارفین کی بنیاد اور ذہنیت وراثت میں ملی تھی، جس نے 90 کی دہائی کے اوائل میں اپنے پاور سیکٹر کو سرکاری سے نجی شعبے میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔

دہلی حکومت کی جانب سے بجلی کی تقسیم کا انتظام نجی کمپنیوں خاص طور پر بی ایس ای ایس راجدھانی پاور لمیٹڈ (بی آر پی ایل)، بی ایس ای ایس یمنا پاور لمیٹڈ (بی وائی پی ایل) اور ٹاٹا پاور دہلی ڈسٹری بیوشن لمیٹڈ (ٹی پی ڈی ڈی ایل) کو سونپنے کا فیصلہ ہندوستان کے توانائی کے شعبے میں ایک اہم قدم ہے۔

دہلی میں بجلی کی تقسیم کی نجکاری 2002 میں اصلاحات کے ایک بڑے حصے کے طور پر شروع کی گئی تھی، جس کا مقصد بجلی کی فراہمی کی کارکردگی اور بھروسے کو بہتر بنانا تھا۔

تین نجی ڈسٹری بیوٹرز نے بجلی کی تقسیم کا انتظام سابق دہلی ودیوت بورڈ (ڈی وی بی) سے سنبھال لیا۔ نجکاری کی اس کوشش کا بنیادی مقصد نظام کے نقصانات کو کم کرنا ، کسٹمر سروس کو بہتر بنانا ، بجلی کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنانا اور بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔

پرائیویٹائزڈ کمپنیاں ڈی ای آر سی کے ذریعہ قائم کردہ ریگولیٹری فریم ورک کے تحت کام کرتی ہیں، جو ٹیرف مقرر کرتی ہے اور ان کی کارکردگی کی نگرانی کرتی ہے۔ یہ فریم ورک صارفین اور سروس فراہم کنندگان کے مفادات کے درمیان توازن پیدا کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔

نجکاری کے بعد سے ، مختلف پیرامیٹرز میں نمایاں بہتری آئی ہے ، جس میں مجموعی تکنیکی اور تجارتی (اے ٹی اینڈ سی) نقصانات میں کمی ، بلنگ کی کارکردگی میں بہتری ، اور جدید ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری شامل ہے۔ مثال کے طور پر، اے ٹی اینڈ سی کے نقصانات، جو نجکاری سے پہلے تقریبا 50 سے60 فیصد تھے، میں نمایاں کمی آئی ہے۔

ممبئی اور ہندوستان کے دیگر بڑے شہروں میں نجی شعبے کی کامیابی کی کہانی بھی یہی ہے۔

اس حقیقت سے واضح ہوتا ہے کہ بھارت کا توانائی کا شعبہ، جو دنیا میں بجلی پیدا کرنے والا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے، اپنی بڑی صنعتی بنیاد کو قابل برداشت اور قابل اعتماد بجلی کی فراہمی سے چلا رہا ہے، اور اس کا نجی بجلی کا شعبہ مؤثر طریقے سے ملکی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ دوسری جانب، پاکستان کا توانائی کا شعبہ ملک کی صنعت کی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ہے۔ حکومت کو مزید تاخیر کے بغیر غیر مؤثر سرکاری شعبے سے مؤثر نجی شعبے کی طرف منتقل ہونے کی ضرورت ہے۔

Comments

200 حروف