’میڈ ان اٹلی: شیم ان اٹلی“، اٹلی میں چرمی اشیا بنانے کیلئے معروف علاقے ٹسکنی سے جنیوا منتقل ہونے والے مٹھی بھر تارکین وطن مزدروں نے لگژری ایسیسیریز بنانے والی کمپنی مونٹ بلانک کے فلیگ شپ اسٹور کے باہر پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر مذکورہ نعرے درج تھے۔

76 ارب ڈالر کے اثاثوں کی مالک مونٹ بلانک کی پیرنٹ کمپنی رچیومونٹ کے شیئر ہولڈرز کے اجلاس سے تقریباً تین کلومیٹر دور کھڑے، مزدوروں نے، جن کے ساتھ درجنوں اٹلی اور سوئٹزرلینڈ کے یونین اہلکار تھے، الزام لگایا کہ کمپنی نے گزشتہ سال بڑھتی ہوئی لاگت کی وجہ سے اپنے سپلائر زیڈ پروڈکشن کو چھوڑ دیا۔

مزدوروں اور یونین کے عہدیداروں نے رائٹرز کو بتایا کہ ٹسکنی میں واقع چینی ملکیت والے کنٹریکٹرز نے کئی سالوں کے غیر قانونی معاہدوں اور طویل شفٹوں کے بعد اکتوبر 2022 میں اپنے کام کے حالات کو بہتر بنایا تھا۔

 ۔
۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والے 23 سالہ زین علی نے کہا کہ نے کہا کہ مونبلان نے معاہدہ ختم کر دیا کیونکہ ہم قانون کے مطابق دیگر مزدوروں کی طرح دن میں آٹھ گھنٹے، ہفتے میں پانچ دن کام کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم دو سال اور چھ ماہ تک زیڈ پروڈکشن کے لیے کام کرتے رہے جس میں انہوں نے چمڑے کی اشیاء پر مونبلان کے دھاتی لوگو لگائے، کمپنی کو مزدور نہیں صرف غلام چاہیئے تھے۔

زیڈ پروڈکشن نے اس اسٹوری پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔ مونبلان نے رائٹرز کو ایک بیان میں کہا کہ اس نے 2023 کے اوائل میں زیڈ پروڈکشن کے معاہدے کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ اس کے آڈٹ سے پتہ چلتا ہے کہ کنٹریکٹرز سپلائرز کے لئے رچیومونٹ کے ضابطہ اخلاق میں بیان کردہ معیارپر پورا اترنے میں ناکام رہا تھا۔

عدالتی دستاویزات کے مطابق رواں سال پراسیکیوٹرز کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات میں اٹلی کے فیشن دارالحکومت میلان کے قریب 16 ورکشاپس میں مزدوروں سے متعلق انتہائی سخت حالات سامنے لائے گئے جو لگژری برانڈز ڈیور، جورجیو ارمانی اور الویرو مارٹینی کے لیے مصنوعات تیار کرتے تھے۔ رائٹرز نے ان دستاویزات کا جائزہ لیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے سات لگژری سپلائی چین ورکرز اور تین یونین رہنماؤں کے ساتھ ساتھ متعدد غیر منافع بخش تنظیموں، مقامی عہدیداروں اور صنعت کاروں سے بات کی جنہوں نے کہا کہ کام کرنے کے اس طرح کے سخت حالات ٹسکنی میں لگژری سپلائی چین کی ایک خصوصیت ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ زیڈ پروڈکشن اور دیگر ورکشاپس نے مونٹ بلانک اور دیگر اعلی درجے کے برانڈز کے لیے لگژری مصنوعات تیار کرنے کے لیے چمڑے کی تیاری کا کوئی تجربہ نہ رکھنے والے غیر قانونی تارکین وطن کو ملازمت دی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سپلائی چین کے مسائل میلان سے باہر بھی پھیلے ہوئے ہیں۔

زیڈ پروڈکشن میں 2022 تک ڈیلیوری مین کے طور پر کام کرنے والے 53 سالہ ایلیسنڈرو لیسی نے بتایا کہ بڑی ورکشاپ میں واحد اطالوی ہونے کے ناطے ان کے پاس باقاعدہ کنٹریکٹ تھا لیکن وہاں کے تارکین وطن مزدوروں سے اضافی کام لیا جاتا تھا۔

انہوں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ میں شام 6 بجے چلا جاتا تھا لیکن باقی سب وہیں رہتے۔ انہوں نے بتایا کہ وہاں کام کرنے والے زیادہ تر ملازمین کا تعلق چین، پاکستان یا بنگلہ دیش سے تھا کیونکہ کمپنی نے اخراجات کم کرنے کی کوشش کی تھی، یہ یہاں ٹسکنی میں بہت عام ہے، یہ بڑے برانڈز لاگت ٹھیکیداروں پر عائد کرتے ہیں۔

 ۔
۔

میلان کی ایک عدالت نے ارمانی کی صنعتی شاخ جیورجیو ارمانی آپریشنز اور اٹلی کی مینوفیکچررز ڈیور کو بالترتیب جنوری، اپریل اور جون میں ایک سال کی مدت کے لیے عدالتی انتظامیہ میں شامل کیا ہے۔

عدالتی دستاویزات اور عدالتی ذرائع کے مطابق، اس کے بعد، جج اس بات کی تصدیق کریں گے کہ آیا کمپنیوں نے خامیوں کو دور کیا ہے اور مزدوروں کے مسائل کو دوبارہ ہونے سے روکنے کے لئے اقدامات کیے ہیں۔

جولائی میں بات کرتے ہوئے ڈیور کی پیرنٹ کمپنی ایل وی ایم ایچ نے کہا کہ وہ سپلائی چین کے آڈٹ اور جانچ پڑتال کو مضبوط بنانے کا ارادہ رکھتی ہے اور یہ کہ ڈیور اس کی پیداوار کا زیادہ براہ راست کنٹرول لے گا۔

اپریل میں ارمانی گروپ نے کہا تھا کہ اس کے پاس سپلائی چین میں زیادتیوں کو کم سے کم کرنے کے لئے ہمیشہ کنٹرول اور روک تھام کے اقدامات موجود ہیں۔ الویرو مارٹینی نے رواں ماہ کہا تھا کہ وہ غیر مجاز ذیلی معاہدوں اور مزدوروں کے استحصال سے لاعلم ہیں۔

اس معاملے سے واقف ایک شخص نے جون میں رائٹرز کو بتایا تھا کہ اطالوی استغاثہ اب تقریبا ایک درجن مزید فیشن برانڈز کی سپلائی چینز کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

پرتعیش اشیا کا گورکھ راز

نایاب اور خصوصی اشیاء کے لئے صارفین کی طلب نے ایل وی ایم ایچ کو 300 بلین یورو (330 بلین ڈالر) سے زیادہ کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن کے ساتھ یورپ کی سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ایک میں تبدیل کرنے میں مدد کی ہے جو لگژری شعبے کی تیزی سے توسیع کی راہ ہموار کرتی ہے۔

برانڈز پیداوار کو تیز کرنے کے لئے ٹھیکیداروں اور ذیلی ٹھیکیداروں کی ایک چین پر انحصار کرتے ہیں جب طلب زیادہ ہوتی ہے اور جب اس میں کمی آتی ہے تو صلاحیت کو تیزی سے کم کیا جاتا ہے۔

ٹسکنی میں ٹیکسٹائل کے مرکز پراٹو میں یونین کے ایک عہدیدار کی موجودگی میں بات کرتے ہوئے عباس اور ارسلان محمد، جو پاکستان سے غیر قانونی تارکین وطن کے طور پر آئے تھے، نے کہا کہ انہوں نے لگژری برانڈز فراہم کرنے والی ورکشاپوں میں درجنوں تارکین وطن کے ساتھ مل کر برسوں تک محنت کی۔

32 سالہ عباس، جو پاکستان میں ویلڈر کا کام کرتے تھے اور 2015 میں بلقان کے راستے اٹلی پہنچے تھے، نے بتایا کہ انہوں نے فلورنس کے قریب چمڑے سے کام کرنے والے ایک مشہور ضلع انیسا والڈارنو میں چین کے زیر انتظام ایک ورکشاپ سے شروعات کی تھی لیکن ان کے پاس کام کا اجازت نامہ نہیں تھا۔

عباس نے بتایا کہ مجھے 14 گھنٹے کھڑے ہوکر کام کرنا پڑتا تھا، انہوں نے بتایا کہ وہ تقریبا 50 پاکستانی، افغان اور چینی تارکین وطن کے ساتھ مل کر بین الاقوامی لگژری برانڈز کے لیے بیگ اور چمڑے کی ایسیسریز بناتے تھے۔ انہوں نے جوابی کارروائی کے خوف سے ورکشاپ کی شناخت کرنے سے انکار کر دیا۔

ان کا کام الگ الگ ٹھیکیداروں کے بنائے ہوئے تھیلوں کے چمڑے کو رنگنا تھا، یہ ہنر انہوں نے اٹلی آنے کے بعد سیکھا۔

انہوں نے بتایا کہ میری ٹانگوں میں اس قدر شدید درد تھا کہ میں رات کو سو نہیں سکتا تھا، میں ٹوائلٹ نہیں جا سکتا تھا اور نہ ہی بیٹھ سکتا تھا۔ انہوں نے نوکری کھونے کے ڈر سے اپنا پورا نام بتانے یا اپنے موجودہ ٹھیکیدار کی تفصیلات دینے سے انکار کیا۔

عباس نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ وہ جزوقتی معاہدے سے ماہانہ 600 سے 700 یورو اور اضافی گھنٹوں کے لیے 400 سے 500 یورو نقد کماتے تھے۔

جنیوا احتجاج کو منظم کرنے میں مدد کرنے والی یونین ایس یو ڈی ڈی کوبس کی ایک عہدیدار فرانسسکا سیفی نے کہا کہ پراٹو میں ورکشاپوں میں اس طرح کے طریقے اب بھی عام ہیں۔

صحت کے مسائل کی وجہ سے عباس کو پہلی نوکری سے برخاست کر دیا گیا تھا لیکن 2019 میں پراٹو کی اسی صنعت میں کام مل گیا۔

انہوں نے کہا کہ اگلے تین سالوں تک ان کے کام کے حالات وہی تھے جس کا تجربہ پہلی فیکٹری میں تجربہ کیا گیا تھا۔ لیکن 2022 میں ایس یو ڈی ڈی کوبس کی مدد سے عباس اور ان کے ساتھیوں نے ماہانہ 1400 یورو کا باقاعدہ معاہدہ حاصل کیا۔

زیڈ پروڈکشن کے لیے کام کرنے والے 27 سالہ پاکستانی تارکین وطن ارسلان نے بتایاکہ انہوں نے 2017 میں اٹلی پہنچنے کے بعد روزانہ کئی گھنٹے کام کیا۔

انہوں نے کہا کہ جب آپ ہفتے میں چھ دن، دن میں 12 گھنٹے سے زیادہ کام کرتے ہیں تو آپ کے پاس خریداری کرنے کا بھی وقت نہیں ہوتا ہے، آپ کے پاس اپنے کپڑے دھونے کا بھی وقت نہیں ہوتا ہے۔

انہوں نے ابتدائی طور پر بغیر کسی معاہدے کے کام کیا اور پھر انہیں جزوقتی معاہدہ دیا گیا۔ انہوں نے رائٹرز کو بتایا کہ عباس کی طرح انہیں بھی بالآخر یونین سے مدد ملی اور انہوں نے 2022 میں زیڈ پروڈکشن سے مناسب معاہدہ حاصل کیا۔

غیر قانونی طریقوں کا پردہ فاش

میلان کی عدالت کی دستاویزات کے مطابق، لگژری برانڈز عموماً اپنے ڈیزائن کی پیداوار ایک سرکردہ ذیلی ٹھیکیدار کو سونپتے ہیں لیکن وہ کمپنی محض ایک خول سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی، جو نمونے تیار کرنے کے قابل ہوتی ہے لیکن اس کی مینوفیکچرنگ صلاحیت محدود ہوتی ہے۔

اصل کام دوسرے ورکشاپ میں کیا جاتا ہے، جہاں اخراجات کم ہوتے ہیں اور حالات اور مزدوروں کے ساتھ اچھے سلوک کا کوئی تصور ہی نہیں ہوتا۔

میلان کے پراسیکیوٹرز نے جون میں ڈیور کیس سے متعلق دستاویزات میں لکھا تھا کہ تحقیقات کے دوران ایسی آزمودہ اور گہری جڑیں رکھنے والی غیر قانونی باتیں سامنے آئیں کہ اسے ایک وسیع تر کاروباری ماڈل کے حصے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس کا مقصد صرف منافع میں اضافہ کرنا ہے۔

اٹلی میں پھیلی ہوئی لگژری سپلائی چین کے اندر کیا ہوتا ہے اس پر نظر رکھنا مشکل ہے۔ کنسلٹنسی بین کے مطابق عالمی مہنگی اشیا کی پیداوار میں ملک کا حصہ 50 سے 55 فیصد کے درمیان ہے۔

اطالوی فیشن برانڈز لابی گروپ نیشنل فیشن چیمبر کے چیئرمین کارلو کاپاسا نے کہا کہ ایک اوسط برانڈ میں 7،000 سپلائرز ہوتے ہیں، اگر ہر سپلائر کے پاس دو ذیلی سپلائرز ہیں، تو یہ شاید یہ مزید 14،000 کا اضافہ ہے، میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ ایک سال میں 21,000 آڈٹ کون کر سکتا ہے…. یہ ناممکن ہے، لہذا یہ واضح ہے کہ کوئی نہ کوئی (کنٹرول) سے بچ جاتا ہے۔

ایک عدالتی ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اٹلی کے کارابینیری کی جانب سے ورکشاپس پر چھاپوں نے ٹھیکیداروں کو الرٹ کر دیا ہے کیونکہ یہ معاملہ جاری ہے: موسم گرما کے دوران کی گئی جانچ پڑتال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹھیکیدار کم از کم میلان کے گردونواح میں اپنی صورتحال کو درست کر رہے ہیں۔

ایک اعلیٰ تحقیقاتی ذرائع نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ کچھ سپلائرز نے پیداوار کو وینیٹو، کیمپانیا اور اپولیا جیسے علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔

اطالوی لابی گروپ سی این اے فیڈرموڈا سے تعلق رکھنے والے انتونیو فرانسشینی، جو کاریگروں اور چھوٹے فیشن کاروباری اداروں کی نمائندگی کرتے ہیں، نے کہا کہ لگژری کی سخت مقابلے والی دنیا میں عملے کو صحیح معاہدوں پر رکھنا اور ماحولیاتی ضوابط کی پاسداری کرنا بالآخر ایک قیمت پر آتا ہے۔

میلان کی عدالتی دستاویزات کے مطابق کم تنخواہ والے ملازمین اور غیر صحت مند کام کے حالات کی وجہ سے ڈیور کے ٹھیکیدار پیلٹٹیریا الزبیٹا یانگ سرل نے ڈیور سے فی ہینڈ بیگ 53 یورو وصول کرنے کی اجازت دی جبکہ اس کی ریٹیل قیمت 2600 یورو تھی۔

ڈیور نے کہا کہ اس نے سپلائر کے ساتھ تعلقات منقطع کر دیئے ہیں جو صرف جزوی طور پر بیگ اسمبل کررہا تھا۔

صنعتی ماہرین انتباہ دیتے ہیں کہ ایسے ورکشاپس جو مہنگی مصنوعات کے لیے انتہائی کم قیمتوں پر کام کرنے کی پیشکش کرتے ہیں، جیسے کہ میلان کے پراسیکیوٹرز کی جانچ پڑتال میں سامنے آئے، بڑے برانڈز کے لیے ایک سرخ جھنڈا ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ جیسے جیسے پیداوار کی قیمتیں کم ہوتی ہیں مزدوروں کے حقوق کی خلاف ورزی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

فرانسشینی نے کہاکہ کام کے معاوضے کی لاگت ایک خاص سطح سے نیچے نہیں گر سکتی ہے۔

Comments

200 حروف