پاکستان طویل مدتی شراکت دار لیکن بیلسٹک میزائل پروگرام کی حمایت نہیں کرتے، امریکہ
- ہماری قومی سلامتی متاثر نہ ہونے کو یقینی بنانے کے لئے پابندیوں اور دیگر ذرائع کا استعمال جاری رکھیں گے، امریکی محکمہ خارجہ
امریکہ نے متنبہ کیا ہے کہ اگرچہ پاکستان اس کا طویل مدتی شراکت دار رہا ہے لیکن اسلام آباد کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر پابندیاں عائد کرنے کا عمل ظاہر کرتا ہے کہ جب امریکہ کے کسی بات پر اختلافات ہوں گے تو وہ امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے اقدامات کرنے سے نہیں ہچکچائے گا“۔
اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر سے ان پابندیوں کے نفاذ کی وجوہات کے بارے میں پوچھا گیا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ جوہری عدم پھیلاؤ کی بین الاقوامی کنٹرول کو مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہے تاکہ جوہری پھیلاؤ سے متعلق سرگرمیوں کی حمایت کرنے والے نیٹ ورکس کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔
ملر نے جواب دیا کہ ہم کئی سالوں سے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے بارے میں اپنے خدشات کے بارے میں واضح اور مستقل رہے ہیں۔
یہ بیان 13 ستمبر کے بعد سامنے آیا ہے جب یہ خبر آئی تھی کہ امریکہ نے ایک چینی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور متعدد کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی ہیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی فراہمی میں ملوث ہیں۔
ملر نے ایک بیان میں کہا کہ بیجنگ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف آٹومیشن فار مشین بلڈنگ انڈسٹری نے شاہین 3 اور ابابیل سسٹم ز اور ممکنہ طور پر بڑے سسٹمز کے لیے راکٹ موٹرز کی ٹیسٹنگ کے لیے آلات کی خریداری کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔
ملر کا کہنا تھا کہ ’جیسا کہ اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ جوہری پھیلاؤ اور اس سے وابستہ خریداری کی سرگرمیوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے گا۔
دریں اثنا، آج اپنے بیان میں ملر نے کہا کہ ”اس کارروائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسی معاملات موجود ہیں جہاں ہمارے اختلافات موجود ہیں، اور جب ہمارے اختلافات ہوں گے، تو ہم امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے ان پر کارروائی کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے“۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کی حمایت سے انکار واشنگٹن کی دیرینہ پالیسی رہی ہے۔
“ہم اپنی پابندیوں کا استعمال جاری رکھیں گے اور ہماری قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے ہمارے دیگر ذرائع لو متاثر نہیں کیا جاسکتا ، اور یہ کہ امریکی مالیاتی نظام کو استعمال نہیں کرسکتے ہیں۔
امریکی فیصلے کے بعد دفتر خارجہ نے اس پیش رفت کو ’متعصبانہ اور سیاسی محرکات‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’دوہرے معیار اور امتیازی طرز عمل‘ جوہری عدم پھیلاؤ کے عالمی نظام کی ساکھ کو کمزور کرتے ہیں۔
دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا تھا کہ ماضی میں تجارتی اداروں کی اسی طرح کی فہرستیں محض شک کی بنیاد پر بنائی تھیں، انہوں نے مزید کہا کہ اس میں ایسی اشیاء شامل تھیں جو کسی ایکسپورٹ کنٹرول ریجیم کے تحت درج نہیں تھیں۔
پاکستان پہلے ہی مشکل میں پھنس چکا ہے کیونکہ واشنگٹن نے اسلام آباد کو ایران کے ساتھ گیس معاہدے پر عمل درآمد کے خلاف متنبہ کیا ہے جو کئی سالوں سے التوا کا شکار ہے۔
Comments