اگرچہ کافی دیر سے اور شاید تیزی سے رونما ہونے والے ماحولیاتی تبدیلی کے بحران اور عالمی سطح پر عدم مساوات میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال کے سبب بریٹن ووڈز کے ادارے جیسے کہ ورلڈ بینک گروپ نے بھی حال ہی میں شائع ہونے والی ’ورلڈ ڈیولپمنٹ رپورٹ [ڈبلیو ڈی آر] 2024‘ میں مڈل انکم ممالک، جن میں پاکستان بھی شامل ہے کیونکہ پاکستان بھی کم درمیانی آمدنی رکھنے والا ملک ہے، سے کہا ہے کہ وہ ’سرمایہ کاری پر مبنی حکمت عملیوں‘ سے آگے بڑھیں۔ رپورٹ میں معاشی ڈھانچے کو دوبارہ ترتیب دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے تاکہ کاروبار، محنت اور توانائی کے استعمال کو منظم کیا جاسکے اور زیادہ اقتصادی آزادی، سماجی نقل و حرکت اور سیاسی مقابلے کی صلاحیت کو ممکن بنایا جا سکے۔
عالمی بینک گروپ کی اس سال کی فلگ شپ رپورٹ، جس کا عنوان ’مڈل انکم ٹریپ‘ ہے، نے اس اصطلاح کو ’ایک ایسی صورت حال جس میں ایک درمیانی آمدنی رکھنے والا ملک نظامی ترقی کی سست روی کا سامنا کرتا ہے کیونکہ یہ آمدن کی اعلیٰ سطحوں کو برقرار رکھنے کے لیے درکار نئے معاشی ڈھانچوں کو اپنانے میں ناکام رہتا ہے‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔ اس کے باوجود رپورٹ میں اب بھی اس بڑے مسئلے کو بیان کرنے میں کچھ ہچکچاہٹ دکھائی دیتی ہے جو کہ ’مارکیٹ فنڈامنٹلزم‘ کی مرکزییت ہے جو کمزور ضابطے کے تحت ہے اور جس کا زیادہ تر مالیاتی سختی پر انحصار ہے اور لین دین کی لاگت کے معاشی نمو میں اہم کردار اور اداروں کے معیار کی اہمیت کے بارے میں سمجھ بوجھ کی کمی ہے۔
اس حقیقت کی عدم موجودگی میں رپورٹ میں اگرچہ نجی یا سرکاری شعبے کی سرمایہ کاری کے ذریعے بنیادی طور پر فنانس کی دستیابی کے بجائے پالیسی کے زیادہ سے زیادہ کردار پر زور دیا گیا ہے، پھر بھی ایک بار پھر نیولیبرل اور مالیاتی سختی پر مبنی پالیسیوں سے ہٹ کر پالیسی کے کردار کو نظر انداز کرتی نظر آتی ہے۔
مزید برآں جو مسئلہ نمایاں کیا جا رہا ہے وہ صرف درمیانی آمدنی والے ممالک کے لیے نہیں ہے بلکہ ان تمام ممالک کے لیے ہے جو نیو لبرل پالیسی کے طوفان میں پھنسے ہوئے ہیں۔
عام پالیسی کا ماحول، یہاں تک کہ جب اس میں ترمیم کی جاتی ہے، جیسا کہ بظاہر ڈبلیو ڈی آر 2024 کی سفارشات کے مطابق نیو لبرل فریم ورک کے اندر پیش کی گئی صورت حال میں، غالباً کام نہیں کرے گا جیسا کہ فنانشنل ٹائمز (ایف ٹی) میں شائع ہونے والے ایک مضمون ’درمیانی آمدنی کے جال سے نکلنے‘ نے رپورٹ پر غور کرتے ہوئے نشاندہی کی ہے کہ کسی خاص درمیانی آمدنی والے ملک میں لوگوں کی نمایاں تعداد کسی زیادہ آمدن رکھنے والے ملک کی اوسط آمدنی تک پہنچنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ جیسا کہ ڈبلیو ڈی آر زور دیتا ہے کہ 108 درمیانی آمدنی والے ممالک جن کی فی کس آمدنی 1،136 امریکی ڈالر سے 13،845 امریکی ڈالر کے درمیان ہے، کا عزم اگلی دو یا تین دہائیوں میں اعلی آمدنی والے درجے تک پہنچنا ہے۔ جب اس ہدف کے مقابلے میں جائزہ لیا جائے تو ریکارڈ مایوس کن ہے: 1990 کے بعد سے اعلی آمدنی والے درجے میں منتقل ہونے والی 34 درمیانی آمدنی والی معیشتوں کی کل آبادی 250 ملین سے بھی کم ہے، جو پاکستان کی کل آبادی ہے۔
نومبر 2023 کی روئسوویٹ انسٹیٹیوٹ (آر آئی) کی رپورٹ ’ہاؤ ا نیو اکنامکس وینٹ مین اسٹریم‘ میں نیولیبرل تجربے کی تنقید کرتے ہوئے کہا گیا: ’ہم بلآخر نیولیبرل ازم کے 50 سالہ منصوبے سے باہر آ رہے ہیں جس میں آمدنی، دولت، اور طاقت کو فعال طور پر اوپر کے 1 فیصد کے ہاتھوں منتقل کیا گیا ہے، ایک ایسے نظریے اور بیانیے کے تحت جو کہتا ہے کہ مارکیٹس خدا ہیں، حکومت بری ہے، اور افراد کا انحصار اپنی ذات پر ہے۔‘
مزید برآں، بریٹن ووڈز اداروں کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ نیو لبرل ازم کی پالیسی سے دور ہونے کی ضرورت ہے، اگر وہ واقعی یہ چاہتے ہیں کہ ممالک اپنی معیشتوں میں اس طرح اصلاحات کریں کہ عوام کو معاشی اور سیاسی طور پر بااختیار بنایا جائے تاکہ ان کی محنت کی منصفانہ اجرت ہو اور اس سے پہلے بھی کہ ان کے بنیادی انسانی حقوق جیسے عزت، انتخاب، اور مواقع کا احترام کیا جائے، اور ایک نمائندہ سیاسی قیادت اور عوامی پالیسی کے تحت ان کی حفاظت کی جائے جسے وہ خود بناتے ہیں۔
روئسوویٹ انسٹیٹیوٹ (آر آئی) کی ایک اور رپورٹ جس کا عنوان ’دی ڈیفیشیٹ ہاک ٹیک اوور-‘ ہے اور یہ ستمبر 2024 میں شائع ہوئی، میں کہا گیا: ’یہ رپورٹ اس بات کا جائزہ لیتی ہے کہ کس طرح ڈیفیشیٹ ہاکس نے 1970 کی دہائی سے 2000 کی دہائی تک ڈیموکریٹک پالیسی سازی پر غلبہ حاصل کیا اور اس کے نتیجے میں کیا کھویا گیا۔ اس کے نتیجے میں، یہ پیپر اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہمیں ایک نئے نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔‘
ان چار سالوں میں ہم نے ایک ایسی انتظامیہ دیکھی ہے جو اپنی اقتصادی پالیسی میں نیو لبرل ازم کے نصف صدی کے اصولوں سے مختلف راستہ اختیار کرنے پر آمادہ ہے، لیکن یہ تبدیلی عارضی اور جزوی ہے۔
اسی طرح، 5 ستمبر کو پروجیکٹ سنڈیکیٹ (پی ایس) میں شائع ہونے والے ایک مضمون ’امریکہ کے پاس صنعتی پالیسی کے سوا کوئی متبادل نہیں‘ نے امریکہ میں پالیسی کی ضرورت پر زور دیا — حالانکہ یہ ہر جگہ قابل اطلاق ہے کیونکہ عالمی سطح پر نیو لبرل پالیسی کی غلطیوں کی وجہ سے اقتصادی لچک میں کمی اور عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے — تاکہ مارکیٹ بنیاد پر معاشیات کے بجائے صنعتی پالیسی لائی جا سکے۔
مضمون اس حوالے سے نشاندہی کرتا ہے: ’نیو لبرل ازم نے ریاست کو سکڑنے، جتنا ممکن ہو ضابطوں کو ختم کرنے، اینٹی ٹرسٹ نفاذ کو محدود کرنے، اور زیادہ اقتصادی عدم مساوات کو ایک مناسب قیمت کے طور پر قبول کیا تاکہ نجی کاروبار کو دوبارہ زندہ کیا جا سکے اور ”روزگار کے تخلیق کاروں“ کو متحرک کیا جا سکے۔ مرکزی مفروضہ یہ تھا کہ مارکیٹیں ہمیشہ سرکاری پروگراموں سے بہتر نتائج فراہم کریں گی۔ پھر بھی آج کا اتفاق رائے یہ ہے کہ یہ نقطہ نظر بری طرح ناکام رہا۔ نیو لبرل ازم کے حامیوں کی توقعات کے برعکس، چار دہائیوں میں دولت اور آمدنی کی عدم مساوات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔‘
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، (2024)
Comments