وزارت خزانہ کی 5 بڑے معاشی چیلنجز کی نشاندہی
- ایندھن کی بلند قیمتیں معیشت کو درپیش کئی مسائل میں سے ایک ہے
وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کو5 اہم اور مستقل معاشی چیلنجز کا سامنا ہے جن میں ایندھن کی قیمتیں، غربت اور افراط زر نمایاں ہیں۔
ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کو 1.5 ارب ڈالر کے ایکٹو کنٹری سائیکلکل اخراجات (BRACE)کے بارے میں اپنی پانچویں سہ ماہی کارکردگی رپورٹ میں وزارت خزانہ نے کہا کہ مجموعی طور پر روس اور یوکرین کی جنگ کے پاکستان کی معیشت پر نمایاں اثرات مرتب ہوئے ہیں جس کی بنیادی وجہ ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔
ایندھن کی قیمتوں کے نسبتاً زیادہ اثرات مرتب ہوتے ہیں اورایندھن کی بلند قیمتیں مختلف شعبوں میں معاشی سرگرمی کو متاثر کرسکتی ہیں۔ ایندھن کی بلند قیمتیں نہ صرف پٹرولیم مصنوعات کے براہ راست استعمال کو کم کرتی ہیں بلکہ دیگر شعبوں جیسے کہ بجلی کی پیداوار، صنعتی طلب، مال برداری، سفر، کان کنی، تعمیرات اور دیگر بہت سے شعبوں کو بھی متاثر کرتی ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ایندھن کے بعد خوردنی تیل کا جی ڈی پی اور مقامی استعمال پر سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے، لیکن یہ اثر غریب طبقے کے لیے تقریباً دگنا ہوتا ہے۔ تیل کی قیمت کے ساتھ اس کی نسبتاً زیادہ لچک کی وجہ سے طلب گندم کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے اور غریب گھرانوں میں تقریباً دگنی ہوتی ہے۔ چونکہ پاکستان بڑی حد تک درآمد شدہ پام آئل (مکمل طور پر ملائیشیا اور انڈونیشیا سے) پر انحصار کرتا ہے، لہذا اس کی قیمتوں میں اضافے کا خطرہ زیادہ رہتا ہے اور بچوں کی صحت مند خوراک کی ساخت میں بگاڑ پیدا کر سکتا ہے۔
روس-یوکرین جنگ کے بحران کا غربت پر سنگین اثر پڑسکتا ہے جو پہلے سے محدود مالی جگہ پر مزید بوجھ ڈال سکتا ہے۔ وزارت منصوبہ بندی کی طرف سے جاری کردہ 2022 کے سیلاب کی آفات کے بعد کی ضروریات کی تخمینہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تباہ کن آفت کی وجہ غربت کی شرح میں 3.7 سے 4.0 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے جس سے 8.4 سے 9.1 ملین مزید افراد غربت میں جاسکتے ہیں۔
کسی بھی ممکنہ نقد امداد یا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (موجودہ ٹرانسفر ادائیگی پروگرام) کے دائرہ کار کو بڑھانے سے موجودہ مالی خسارے میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ بڑھتی مہنگائی، خاص طور پر غذائی افراط زر (جو پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے)، پٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور ملکی کرنسی کی مسلسل گراوٹ کا مقامی کھپت پر منفی اثر پڑتا ہے، جس سے مزید غربت پیدا ہوگی۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں غربت میں مزید اضافے کا خدشہ ہے ۔
وزارت نے کہا کہ روس یوکرین جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے عالمی بحران کے نتیجے میں پاکستان میں معاشی ترقی کی رفتار سست ہونے کی توقع کی جارہی تھی تاہم اس کے منفی اثرات غربت، غذائی عدم تحفظ اور غذائیت کے معیار میں بگاڑ پر زیادہ نمایاں ہوسکتے ہیں۔
تاہم 2022 میں پاکستان میں تباہ کن سیلاب سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد اور ملک بھر میں 18 لاکھ ہیکٹر زرعی زمین متاثر ہوئی، جس سے کپاس اور چاول کی فصلوں کو نقصان پہنچا۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق 11 لاکھ 60 ہزار افراد ہلاک ہوئے، عوامی انفرااسٹرکچر اور نجی املاک کو شدید نقصان پہنچا، جس کی وجہ سے مالی سال 2023 میں معاشی ترقی کی رفتار کم، غربت اور غذائی عدم تحفظ میں اضافہ، اور خصوصاً دیہی علاقوں میں غذائیت کے معیار میں مزید بگاڑ کا سامنا ہوگا۔
مالی محاذ پر، آمدنی کی کارکردگی کی حوصلہ افزائی کے باوجود، اخراجات کا پہلو زیادہ مارک اپ ادائیگیوں کی وجہ سے دباؤ میں ہے. تاہم نان مارک اپ اخراجات کو کنٹرول کرنے کے حکومتی اقدامات سے مالی سال 24 کے پہلے چھ ماہ کے دوران پرائمری سرپلس کو بہتر بنانے میں مدد ملی۔
مجموعی مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 2.3 فیصد تک بڑھ گیا جبکہ مالی سال 2024ء جولائی تا دسمبر پرائمری سرپلس میں جی ڈی پی کے 1.7 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
مالی سال 2024 کی پہلی ششماہی کے دوران فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی آمدن 30 فیصد اضافے کے ساتھ 4 ہزار 469 ارب روپے تک پہنچ گئی جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 3 ہزار 429 ارب روپے تھی۔ نان ٹیکس ریونیو میں 108.8 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
بجٹ بمقابلہ حقیقی اخراجات کی صورتحال سے پتہ چلتا ہے کہ مالی سال 24 کی پہلی سہ ماہی کے دوران سالانہ مختص بجٹ کا 19 فیصد استعمال کیا جاتا ہے۔
برآمدی صنعتوں کو سبسڈی پر گیس کی فراہمی کے لئے کوئی سبسڈی کا بجٹ نہیں رکھا گیا ہے۔ اس کے بعد مالی سال 2023-24 کی پہلی سہ ماہی کے دوران کوئی سبسڈی جاری نہیں کی گئی ہے۔ سوئی ناردرن گیس پائپ لائن (ایس این جی پی ایل) اور سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی) کی جانب سے 2022-2023 کے دوران برآمدی شعبے کو سبسڈائزڈ آر ایل این جی فراہم کرنے کے 73 0 ملین روپے کے زیر التوا دعوے ابھی تک کلیئر نہیں ہوئے ہیں۔
ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کے مالی تعاون سے چلنے والے BRACE پروگرام کے تحت پاکستان ایگریکلچرل اسٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن (پاسکو) کو کوئی منصوبہ یا پروگرام تفویض نہیں کیا گیا، لہذا مالی سال 2024 کے دوران کوئی رقم مختص نہیں کی گئی۔
یوریا کھاد کی درآمد کے لیے سبسڈی کا بجٹ گرانٹ نمبر 45-FC21G01- گرانٹس، سبسڈیز اور متفرق اخراجات کے تحت مختص کیا گیا ہے۔
بی آئی ایس پی نے مالی سال 2022-2023 کے دوران پاکستان بھر میں سیلاب سے متاثرہ 2.769 ملین خاندانوں کو 69,222 ملین روپے فی خاندان تقسیم کیے۔مالی سال 2022-2023 کے لئے بی آئی ایس پی کے منظور شدہ مختص رقم میں سے بجٹ کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے “ ہنگامی سیلاب ریلیف کیش اسسٹنس“ کی مد میں 50،419 ملین روپے کی رقم دوبارہ مختص کی گئی۔ باقی رقم کو بلا مشروط نقدی منتقلی کے تحت شمار کیا گیا۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024
Comments