بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے طالب علموں کی قیادت میں مظاہروں کے دوران ہیلی کاپٹر کے ذریعے فرار ہونے کے چار ہفتے بعد تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ بھارت میں اپنے میزبانوں کے لیے سفارتی درد سر بن گئی ہیں۔
حسینہ واجد کا دور اقتدار گزشتہ ماہ اس وقت ختم ہوا جب مظاہرین نے 15 سال بعد ڈھاکہ میں ان کے محل کی طرف مارچ کیا جس میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور حزب اختلاف کے کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری رہا۔
اس بغاوت کی قیادت کرنے والے بنگلہ دیشی طالب علموں کا مطالبہ ہے کہ وہ بھارت سے واپس آئیں، جو ان کی برطرفی سے قبل ان کا سب سے بڑا مدد گار تھا، ان پر بغاوت کے دوران مظاہرین کے قتل کا مقدمہ چلایا جائے۔
لیکن 76 سالہ حسینہ واجد کو واپس بھیجنے سے جنوبی ایشیا میں اپنے دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہندوستان کی ساکھ کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے، جہاں وہ چین کے ساتھ اثر و رسوخ بڑھانے کیلئے شدید جنگ لڑ رہا ہے۔
تنازعات کے حل کے لیے کام کرنے والے تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے تھامس کین کا کہنا ہے کہ ’بھارت واضح طور پر انہیں بنگلہ دیش کے حوالے نہیں کرنا چاہتا۔
انہوں نے کہا کہ خطے کے دیگر رہنماؤں کو جو پیغام جائے گا جو نئی دہلی کے قریب ہیں وہ مثبت نہیں ہوگا۔ آخر کار بھارت آپ کی حفاظت نہیں کرے گا۔
’اچھے تعلقات چاہتے ہیں‘
نئی دہلی کو گزشتہ سال مالدیپ میں اپنے پسندیدہ صدارتی امیدوار کے مقابلے میں ایک ایسے حریف سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جس نے فوری طور پر اسٹرٹیجک طور پراہم مقام کو بیجنگ کی طرف جھکا دیا تھا۔
حسینہ واجد کے تختہ الٹنے سے بھارت خطے میں اپنا قریبی اتحادی کھو گیا۔
بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت کی زیادتیوں کا شکار افراد بھارت کے کھلے عام مخالف ہیں۔
مودی نے 84 سالہ نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کی قیادت میں حسینہ واجد کی جگہ لینے والی حکومت کی حمایت کا وعدہ کیا ہے۔
لیکن مودی، جنہوں نے ہندو عقیدے کی حمایت کو اپنے دور کا ایک اہم موضوع بنایا ہے، نے یونس کی انتظامیہ پر بار بار زور دیا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کی ہندو مذہبی اقلیت کا تحفظ کرے۔
حسینہ واجد کی عوامی لیگ کو بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے مقابلے میں بنگلہ دیش کی ہندو اقلیت کا زیادہ تحفظ کرنے والا سمجھا جاتا تھا۔
مودی نے 17 ویں صدی کے لال قلعے کی چوٹی سے یوم آزادی کے موقع پر اپنے سالانہ خطاب میں بنگلہ دیشی ہندوؤں کو خطرے میں قرار دیا اور بعد میں یہ معاملہ امریکی صدر جو بائیڈن کے سامنے اٹھایا۔
حسینہ واجد کی روانگی کے بعد ہونے والی افراتفری میں کچھ بنگلہ دیشی ہندوؤں اور ہندو مندروں کو نشانہ بنایا گیا تھا جس کی طلبہ رہنماؤں اور عبوری حکومت نے مذمت کی تھی۔
لیکن بعد میں حکومت کے حامی بھارتی نیوز چینلز نے تشدد کے بارے میں انتہائی مبالغہ آمیز بیانات شائع کیے اور مودی کی پارٹی سے وابستہ ہندو سرگرم گروپوں کی جانب سے احتجاج کیا گیا۔
بی این پی کے ایک سرکردہ رہنما فخرالاسلام عالمگیر نے کہا کہ بھارت نے حسینہ واجد کی حمایت کرکے اپنا سارا پھل ایک ٹوکری میں ڈال دیا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ راستہ کیسے بدلا جائے۔
حسینہ واجد کے دور میں گرفتار کیے گئے بی این پی کے ہزاروں ارکان میں سے ایک عالمگیر نے اے ایف پی کو بتایا کہ بنگلہ دیش کے عوام بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں لیکن اپنے مفادات کی قیمت پر نہیں۔ بدقسمتی سے بھارت کا رویہ اعتماد پیدا کرنے کے لیے سازگار نہیں ہے۔
’آمروں کو پناہ دینا‘
عدم اعتماد کا ماحول ایسا ہے کہ جب اگست میں دونوں ممالک میں مہلک سیلاب آیا تو کچھ بنگلہ دیشیوں نے اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کا ذمہ دار بھارت کو ٹھہرایا۔
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے حسینہ واجد کے بھارت میں پناہ لینے کا معاملہ نئی دہلی کے سامنے عوامی سطح پر نہیں اٹھایا ہے – ان کا آخری معلوم سرکاری ٹھکانہ دارالحکومت کے قریب ایک فوجی ہوائی اڈہ ہے – لیکن ڈھاکہ نے ان کا سفارتی پاسپورٹ منسوخ کر دیا ہے ، جس کی وجہ سے وہ آگے کا سفر نہیں کر سکتی ہیں۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، “کسی بھی حکومت کو یہ احساس ہوگا کہ حسینہ واجد کے ہندوستان میں قیام کو ایشو بنانے سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے۔
Comments