اسرائیل نے اتوار کے روز اعلان کیا کہ اس کے فوجیوں نے غزہ کی ایک سرنگ سے 6 یرغمالیوں کی لاشیں برآمد کی ہیں جبکہ اسرائیلی پولیس کا کہناہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک ”مسلح حملے“ میں 3 افسر ہلاک ہو گئے ہیں۔

حبرون شہر کے قریب ہونے والے مہلک حملے نے مغربی کنارے میں بڑھتے ہوئے تشدد میں مزید اضافہ کیا ہے، جسے اسرائیل نے غزہ سے الگ کر رکھا ہے ، جہاں اسرائیل نے بدھ سے بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن جاری رکھا ہوا ہے جس نے بین الاقوامی سطح پر تشویش کو جنم دیا ہے۔

محاصرے کا شکار غزہ پٹی میں اتوار کے روز اسرائیل اور حماس کے درمیان تقریباً 11 ماہ کی جنگ کے دوران ”انسانی ہمدری کی بنیاد پر وقفے“ کا آغاز کیا گیا تاکہ پولیو کے وسیع پیمانے پر ویکسینیشن مہم کو آسان بنایا جا سکے، جو کہ صحت کے شعبے سے وابستہ ایک عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایا کہ شروع ہو چکی ہے۔

اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ 6 یرغمالیوں کی باقیات ہفتے کے روز “جنوبی غزہ کے رفح علاقے میں زیر زمین سرنگ سے برآمد کی گئیں اور اسرائیل میں باضابطہ طور پر ان کی شناخت کی گئی۔ ان میں سے ایک کی شناخت کارمل گیٹ کے نام سے کی گئی ہے جسے غزہ کی سرحد کے قریب کبوتز برادری سے پکڑا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ایڈن یروشالمی، الموگ سروسی، اوری دانینو، امریکی اسرائیلی ہرش گولڈ برگ پولن اور روسی اسرائیلی الیگزینڈر لوبانوف کو فلسطینی گروپ نے ایک میوزک فیسٹیول کے مقام سے گرفتار کیا تھا۔

فوجی ترجمان ڈینیئل ہگاری نے دعویٰ کیا کہ ان تمام چھ افراد کو 7 اکتوبر کی صبح زندہ اغوا کیا گیا تھا اور “ہماری پہنچنے سے تھوڑی دیر پہلے حماس نے انہیں قتل کر دیا۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے ان چھ یرغمالیوں، جن میں گولڈ برگ-پولن بھی شامل ہیں، کی موت پر شدید دکھ اور غم و غصے کا اظہار کیا۔

انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ ”اب بھی پر امید ہیں“ کہ غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ ہو سکتا ہے۔

بائیڈن، جن کی انتظامیہ قطر اور مصر کے ساتھ جنگ بندی کے لیے ثالثی کی کوششوں میں مصروف ہے، نے کہاکہ وقت آ گیا ہے کہ یہ جنگ ختم ہو۔

یہ چھ افراد 251 یرغمالیوں میں شامل تھے جنہیں حماس کے 7 اکتوبر کے حملے کے دوران پکڑا گیا تھا، جن میں سے 97 ابھی تک غزہ میں قید ہیں جبکہ 33 کے بارے میں اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔ درجنوں یرغمالیوں کو نومبر میں ایک ہفتے کی جنگ بندی کے دوران مذاکرات کے بعد رہا کیا گیا۔

یرغمالیوں اور لاپتہ خاندانوں کے فورم نامی مہم گروپ نے کہا کہ یرغمالیوں کی واپسی کے لیے معاہدے کی فوری ضرورت ہے۔

مغربی کنارے میں تشدد

ایسے وقت میں جب غزہ میں لڑائی جاری ہے، مغربی کنارے میں اسرائیلی افواج اور فلسطینی جنگجوؤں کے درمیان جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ یہ جھڑپیں اسرائیلی افواج کی جانب سے بڑے پیمانے پر مربوط چھاپوں کے پانچویں روز جاری ہیں جنہیں فوج نے ”انسداد دہشت گردی“ آپریشن قرار دیا ہے۔

اسرائیل کی ایمرجنسی میڈیکل سروس کے مطابق اتوار کے روز جنوبی مغربی کنارے کے علاقے حبرون میں ترقومیہ چیک پوائنٹ کے قریب ایک ”مسلح حملے“ میں تین افراد ہلاک ہو گئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ تمام افسران تھے۔

فوج نے کہا کہ ممکنہ طور پر کئی حملہ آور اس میں ملوث تھے اور سیکیورٹی فورسز نے فلسطینی جنگجوؤں کی تلاش شروع کر دی ہے۔ شمالی مغربی کنارے میں ایک اے ایف پی فوٹوگرافر نے جینین کے شہر کے مرکز میں اسرائیلی بلڈوزر دیکھے۔ اس سے ایک دن قبل ایک مقامی عہدیدار نے کہا تھا کہ فوجیوں نے بیشتر سڑکیں تباہ کر دی تھیں، جب کہ بجلی اور پانی قریبی پناہ گزین کیمپ میں منقطع کر دیے گئے تھے۔

کم از کم 22 فلسطینی، جن میں 14 کے بارے میں مختلف گروپس نے کیا ہے، بدھ سے شمالی مغربی کنارے میں بیک وقت چھاپوں کے آغاز سے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔

اسرائیلی فوج نے کہا کہ ہفتے کے روز 20 سالہ ایک سپاہی بھی ہلاک ہو گیا۔

اردنی وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے کشیدگی خطرناک حدتک بڑھنے کا ذمہ دار صرف اسرائیل کو قرار دیتے ہوئے اس کے خونریز حملے روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔

اقوام متحدہ نے بدھ کو کہا کہ 7 اکتوبر کے بعد سے مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجیوں یا آباد کاروں کے ہاتھوں کم از کم 637 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔

اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، اسی مدت کے دوران فلسطینی حملوں یا فوجی کارروائیوں کے دوران 23 اسرائیلی، جن میں فوجی بھی شامل ہیں، ہلاک ہو چکے ہیں۔

Comments

200 حروف