ہفتے کے روز جینین میں سڑکوں کے کنارے کنکریٹ کی سلاخوں اور شیٹ میٹل کا ڈھیر لگا ہوا تھا، جب کہ رہائشیوں نے اسرائیل کے مغربی کنارے کے تازہ ترین حملے سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگایا تھا، حالانکہ قریب ہی دھماکے جاری تھے۔

مقبوضہ فلسطینی علاقے میں جاری جھڑپوں کے نشانات جو بدھ کے روز اسرائیل کی جانب سے انسداد دہشت گردی آپریشن کے حصے کے طور پر شروع ہوئی تھیں، ہر جگہ موجود تھے: منہدم ہونے والی دیواریں، اکھڑے درخت، چھتیں ملبے کے ڈھیر کو ڈھانپ رہی تھیں۔

مشرقی جنین کے ایک محلے کے رہائشیوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ حملے کے پہلے دن بلڈوزر سڑکوں پر موجود تھے، جس سے اسرائیلی فوجیوں کے لیے راستہ صاف کیا گیا اور زیر زمین پائپوں کو توڑ دیا گیا۔

طاہر السعدی نے کہا کہ تین دن بعد، شہر کے دیگر حصوں میں لڑائی جاری ہے، ”ہم دنیا سے کٹ گئے ہیں“۔

’’پانی کاٹ دیا گیا ہے۔ بجلی کاٹ دی گئی ہے، سیوریج کا نظام اب کام نہیں کر رہا ہے۔ تمام بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے، ہمارے پاس اب کوئی ایسی خدمات نہیں ہیں جو کام کرتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: ”بیکریاں بند ہیں۔ بچوں کے لیے دودھ نہیں مل رہا۔“

جینین میں اسرائیل کے چھاپے معمول کی بات ہیں، جس کا پناہ گزین کیمپ اسرائیل کے خلاف لڑنے والے مسلح گروپوں کا گڑھ ہے۔

لیکن بدھ کے روز شروع کیا جانے والا آپریشن غیر معمولی طور پر بڑا اور طویل تھا، جو ایک ساتھ متعدد مغربی کنارے کے شہروں میں جاری تھا اور جینین میں اس کے ختم ہونے کا کوئی آثار نہیں تھے۔

جنین گورنمنٹ اسپتال کے ڈائریکٹر وسام بکر نے ہفتے کے روز کہا کہ میرے خیال میں حملے کے آغاز کے بعد سے یہ بدترین دن ہے۔

ہم وقتا فوقتا جھڑپوں کی آوازیں سنتے ہیں اور بعض اوقات بڑی بمباری بھی ہوتی ہے۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ فائزہ ابو جعفر کی رہائش گاہ سے کچھ ہی فاصلے پر ایک 82 سالہ شخص کو جمعے کے روز اسرائیلی اسنائپر نے گولی مار کر شہید کر دیا تھا جس کے بعد اب تک اس آپریشن میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 20 ہو گئی ہے۔

حماس اور اس کے اتحادی اسلامی جہاد نے کہا ہے کہ شہید افراد میں کم از کم 13 ان کے مسلح ونگز کے ارکان تھے۔

ابو جعفر کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فوج کی گاڑیاں اور بلڈوزر ہفتے کی صبح ان کے گھر کے قریب سے نکل کر جنین کے پناہ گزین کیمپ کی طرف بڑھ رہے تھے۔

“یہ بہت مشکل ہے، بچوں کے لئے اور سب کے لئے. ہم ڈرے ہوئے ہیں، ہم خوفزدہ ہیں، تمام نقصانات کو دیکھو،’’ ملبے کے ڈھیر کے درمیان کھڑے ہو کر انہوں نے کہا۔

’’ہم تاریک دنوں میں رہ رہے ہیں۔‘’

ابھی تک اندھیرا کتنا ہے یہ واضح نہیں ہے کیونکہ جنین کے گورنر کمال ابو الرب نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ بھی نہیں جانتے کہ کیمپ کے اندر کیا ہو رہا ہے، جہاں تازہ ترین لڑائی جاری ہے۔

انہوں نے کہا، “اسرائیلی اسپتالوں کا محاصرہ کر رہے ہیں اور پناہ گزین کیمپ سے شہر کو کاٹ رہے ہیں، جو ایک فوجی علاقہ بن گیا ہے جس تک رسائی نہیں ہے۔

نہ تو سول ڈیفنس، نہ ہی ایمبولینس اور نہ ہی صحافی جا کر دیکھ سکتے ہیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔

اسرائیلی فوج نے اسپتالوں تک رسائی روکنے کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے عسکریت پسندوں کو ان میں جمع ہونے سے روکنے کے لیے اپنی افواج تعینات کر رکھی ہیں جبکہ ایمبولینسوں کو آنے اور جانے کی اجازت دی گئی ہے۔ غزہ کی پٹی میں 7 اکتوبر کو حماس کے غیر معمولی حملے کے بعد سے مغربی کنارے میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ نے بدھ کے روز کہا ہے کہ غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک اسرائیلی فوجیوں یا آباد کاروں کے ہاتھوں کم از کم 637 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔

اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اسی عرصے کے دوران فلسطینی حملوں یا فوجی کارروائیوں کے دوران فوجیوں سمیت 19 اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں۔

اسرائیلی فوج کے ترجمان ناداو شوشانی نے کہا کہ بدھ کو شروع ہونے والے حالیہ چھاپے میں شامل فورسز کی تعداد جولائی 2023 میں بڑے پیمانے پر چھاپے مارنے والوں کی تعداد سے کم ہے جس میں 13 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

Comments

200 حروف