نجی شعبے کو دیے گئے قرضے: غلط حساب؟
رواں مالی سال یکم جولائی سے 26 جولائی کے دوران نجی شعبے کو دیے جانے والے قرضے 91.1 فیصد کی کمی سے منفی 326.9 ارب روپے رہے جبکہ مالی سال 2023-24 (یکم جولائی تا 28 جولائی) میں یہ منفی 171.1 ارب روپےتھے۔
یہ ڈیٹا جمعہ کو جاری ہونے والے اگست 2024 ماہانہ اپ ڈیٹ اینڈ آؤٹ لک پر اپ لوڈ کیا گیا ہے جس میں اس اعداد و شمار کے تجزیے میں کوئی حوالہ نہیں تھا جو ٹائپوگرافک غلطی کی نشاندہی ہوسکتی ہے۔
وزارت خزانہ نے کہا کہ اقتصادی اشاریوں میں استحکام کی وجہ سے افراط زر سنگل ڈیجٹ کی طرف بڑھ رہا ہے اور اگست میں 9.5 سے 10.5 فیصد کے درمیان رہنے اور ستمبر 2024 میں مزید گراوٹ کے ساتھ 9 سے10 فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ توقع ہے کہ اگست 2024 میں برآمدات 2.5 سے 3.2 ارب ڈالر، درآمدات 4.5 سے 5.0 ارب ڈالر اور کارکنوں کی ترسیلات زر 2.6 سے 3.3 ارب ڈالر کی حد میں رہیں گی۔
بیرونی شعبے کا مستحکم نقطہ نظر مستحکم شرح تبادلہ، مقامی معاشی سرگرمیوں کی بحالی، بہتر زرعی پیداوار، کم ملکی اور عالمی اجناس کی قیمتوں اور بہتر غیر ملکی طلب پر منحصر ہے۔
تاہم زراعت کے نقطہ نظر کے لئے، خریف 2024 کی پیداوار فصلوں کے مخصوص موسمی پیٹرن پر منحصر ہے، جو فصل کی پیداوار میں اہم کردار ادا کرے گا. حالیہ اور جاری بارشوں کا چاول، گنا، کپاس، چارہ اور سبزیوں پر مثبت اور منفی اثر پڑ سکتا ہے۔
لارج اسکیل مینوفیکچرنگ (ایل ایس ایم) کے شعبے میں مالی سال 2025 میں مثبت نمو برقرار رہنے کا امکان ہے جس کی وجہ بیرونی طلب میں بہتری، مستحکم شرح تبادلہ، افراط زر میں کمی اور مانیٹری پالیسی میں نرمی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہملکی معیشت نے مالی سال 2025 کا آغاز مثبت پیش رفت کے ساتھ کیا ہے جس سے آنے والے مہینوں کے لیے مثبت سمت کا تعین ہوگا۔ جیسا کہ جولائی 2024 میں، سی پی آئی افراط زر میں کمی نے اشارہ کیا کہ معیشت آنے والے مہینوں میں سنگل ڈیجٹ افراط زر حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ مالی اور بیرونی دونوں شعبوں نے لچک کا مظاہرہ کیا ہے جس کی وجہ بہتر انتظام ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ میں بہتری آئی ہے اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ٹیکس وصولی ہدف سے تجاوز کر گئی ہے۔
حکومت مالی سال 2024 میں مالیاتی خسارے کو جی ڈی پی کے 6.8 فیصد تک کم کرنے میں کامیاب رہی جو گزشتہ سال 7.8 فیصد تھی۔ پرائمری بیلنس جی ڈی پی کا 0.9 فیصد سرپلس ظاہر کرتا ہے جبکہ مالی سال 2023 میں یہ خسارہ جی ڈی پی کا 1.0 فیصد تھا۔ دانشمندانہ اقدامات کی وجہ سے مالی کارکردگی مستحکم رہی۔ ٹیکس اور نان ٹیکس کلیکشن دونوں میں نمایاں اضافے کی وجہ سے مجموعی محصولات میں 38 فیصد اضافہ ہوا۔
مالی سال 2024ء میں نان ٹیکس وصولیاں 75.4 فیصد اضافے کے ساتھ 3183.3 ارب روپے رہیں جو گزشتہ سال 1814.8 ارب روپے تھیں۔ ایف بی آر کے محصولات میں اضافے کا سلسلہ جاری رہا اور جولائی 2024ء کے لیے مقرر کردہ ہدف 3.8 ارب روپے سے تجاوز کر گیا کیونکہ خالص ٹیکس وصولی میں 23 فیصد اضافہ ہوا اور ٹیکس وصولی گزشتہ سال کے 538.4 ارب روپے کے مقابلے میں 659.8 ارب روپے رہی۔
ایل ایس ایم نے مالی سال 2024 میں 0.9 فیصد کی مثبت نمو درج کی جبکہ پچھلے سال 10.3 فیصد سکڑاؤ دیکھا گیا تھا، تاہم جون 2024 میں ٹیکسٹائل، غیردھاتی معدنیات، مشروبات، آئرن اینڈ اسٹیل، آٹوموبائلز اور تمباکو کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے ایل ایس ایم میں سال بہ سال کی بنیاد پر 0.03 فیصد کی معمولی کمی واقع ہوئی۔
آٹو انڈسٹری نے جولائی مالی سال 2025 میں زور پکڑنا شروع کیا ، کیونکہ تمام گاڑیوں کی پیداوار اور فروخت میں بالترتیب 15.3 فیصد اور 16.9 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔ کاروں (89.6 فیصد) اور ٹرکوں اور بسوں (212.6 فیصد) کی پیداوار میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ تاہم جولائی میں سیمنٹ کی کل ترسیل 3.0 ملین ٹن ریکارڈ کی گئی، جو سالانہ بنیاد پر6.8 فیصد کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔
مالی سال 2024ء کے دوران زرعی قرضوں کی تقسیم میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 24.8 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور یہ 2216 ارب روپے رہا۔
خریف 2024 (اپریل تا جولائی) کے دوران یوریا کی پیداوار 1,822 ہزار ٹن رہی جو خریف 2023 کے مقابلے میں 13.5 فیصد کم ہے جبکہ ڈی اے پی کی پیداوار خریف 2023 کے مقابلے میں 8.2 فیصد اضافے کے ساتھ 419 ہزار ٹن رہی۔
پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے مطابق 15 جولائی 2024 تک کپاس کی آمد میں کمی دیکھی گئی ہے کیونکہ 24-2023 میں کپاس کی کل تعداد 0.858 ملین سے کم ہو کر 2024-25 میں 0.442 ملین رہ گئی ہے۔
جولائی مالی سال 2025ء کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ گزشتہ سال کے 0.7 ارب ڈالر کے مقابلے میں کم ہو کر 0.2 ارب ڈالر رہ گیا۔ اشیاء کی برآمدات 12.9 فیصد اضافے کے ساتھ 2.4 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں جبکہ درآمدات 4.8 ارب ڈالر ریکارڈ کی گئیں جو گزشتہ سال 4.1 ارب ڈالر (16.3 فیصد اضافہ) تھیں۔ اس کی وجہ سے سامان کی تجارت کا خسارہ 2.4 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جو گزشتہ سال 2.0 ارب ڈالر تھا۔
خدمات کی برآمدات 5.8 فیصد اضافے کے ساتھ 0.6 ارب ڈالر جب کہ درآمدات 8.0 فیصد کم ہوکر 0.8 ارب ڈالر رہیں جس کے نتیجے میں خسارہ گزشتہ سال کے 0.3 ارب ڈالر کے مقابلے میں 0.2 ارب ڈالر کم ہوا۔ جولائی مالی سال 2025 میں کارکنوں کی ترسیلات زر 3.0 ارب ڈالر (47.6 فیصد اضافہ) تک پہنچ گئیں جس میں سب سے بڑا حصہ سعودی عرب کا ہے۔ 23 اگست تک زرمبادلہ ذخائر 14.8 ارب ڈالر ریکارڈ کیے گئے جبکہ اسٹیٹ بینک نے 9.4 ارب ڈالر کے ذخائر برقرار رکھے ۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) 136 ملین ڈالر رہی جو 63.7 فیصد زیادہ ہے۔
ماہانہ نقطہ نظر میں کہا گیا ہے کہ سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت تقسیم میں 1.5 فیصد کمی کی گئی جو 2023-24 میں 732 ارب روپے رہی ۔
افراط زر کے دباؤ میں کمی کو دیکھتے ہوئے مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے پالیسی ریٹ کو مزید 100 بیسس پوائنٹس کم کرکے 19.5 فیصد کردیا جس کا اطلاق 30 جولائی 2024 سے ہوگا۔
یکم جولائی تا 2 اگست مالی سال 2024ء کے دوران منی سپلائی (ایم ٹو) میں 3.2 فیصد کی کمی واقع ہوئی جبکہ گزشتہ سال یہ 2.0 فیصد کمی تھی۔ پالیسی ریٹ ایڈجسٹمنٹ افراط زر کی توقعات کو برقرار رکھے گی اور مالی سال 2025 میں پائیدار معاشی بحالی میں مدد ملے گی۔
کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024
Comments