مارکیٹس کے کمزور ضابطے، یا ’مارکیٹ بنیاد پرستی‘ کی پالیسی جسے مارکیٹ خود سب سے بہتر جانتی ہے اور اگر اسے اکیلا چھوڑ دیا جائے تو مارکیٹ کی ناکامیاں خود بخود حل ہو جائیں گی۔ پچھلی چار دہائیوں کے دوران، عالمی سطح پر اور ملک کے اندر نیو لبرل پالیسی کی مجموعی لہر کے تحت معلومات کی عدم مطابقت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، اور اس کے نتیجے میں ’تلاش اور معلومات‘ سے متعلق لین دین کی لاگت میں بھی قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔

یہ بنیادی طور پر ’شکاگو اسکول‘ کے نیو لبرل یا ’واشنگٹن اتفاق رئے‘ طرز کی پالیسی سوچ کے مضبوط اثر کی وجہ سے ہوا ہے، اور اسی طرح کی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے پروگرام کی شرائط کی وجہ سے بھی۔

حکومت کے لیے ایک بڑی تشویش قیمتوں کی دریافت میں نمایاں اصلاحات ہونی چاہئیں جس کے لیے ملک بھر میں ایک متفقہ ’قیمتوں کی پالیسی‘ ہونی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس پالیسی پر مضبوط حمایت حاصل ہو تاکہ ملک بھر میں قیمتوں کے ضابطے ایک ہی معیار پر یقینی بنائے جا سکیں اور نتائج کی بہتر نگرانی اور جائزہ کے مقاصد کے لیے معیاری عمل کو فروغ دیا جا سکے۔

پالیسی کو نہ صرف مارکیٹ کی ناکامیوں سے مؤثر طور پر نمٹنے کی ضرورت ہے، بلکہ حکومت کو مارکیٹ کی تخلیق میں نجی شعبے کا ایک مؤثر شراکت دار بھی ہونا چاہیے۔

بین الاقوامی شہرت یافتہ معیشت دان، ماریانا مَزُوکاتو، اپنی کتاب ’The Entrepreneurial State: Debunking Public vs. Private Sector Myths‘ میں عوامی شعبے کے مارکیٹ میں بڑھتے کردار کی ضرورت پر زور دیتی ہیں اور لکھتی ہیں کہ ’نیوکلاسیکل اقتصادی نظریہ، جو اکثر اقتصادیات کے بیشتر شعبوں میں پڑھایا جاتا ہے، کے مطابق حکومت کی پالیسی کا مقصد صرف مارکیٹ کی ناکامیوں کو درست کرنا ہے۔ اس نظریے کے تحت جب ناکامی کے ذرائع کو حل کر لیا جاتا ہے تو مارکیٹ کی قوتیں وسائل کو مؤثر طریقے سے مختص کریں گی۔ لیکن یہ نظریہ بھول جاتا ہے کہ مارکیٹیں ’اندھی‘ ہوتی ہیں، اور سماجی یا مارکیٹ کے خدشات کو نظرانداز کر سکتی ہیں۔ اور اکثر غیر معیاری راستے پر انحصار کی سمتوں میں چلی جاتی ہیں جو خود کو مضبوط کرتی ہیں۔ ان چیلنجز کا سامنا کرنے میں ریاست کو قیادت کرنی چاہیے - صرف مارکیٹ کی ناکامیوں کو درست کر کے نہیں بلکہ نئی مارکیٹوں کو فعال طور پر تخلیق اور شکل دے کر، جبکہ موجودہ مارکیٹوں کیلئے ضابطوں کی تشکیل بھی ہونی چاہیے۔،

معیشت کو ایک ’مکمل‘ نظام کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے، جہاں تجویز کردہ ’قیمتوں کی پالیسی‘ کی تشویش صرف حقیقی شعبے تک محدود نہیں ہونی چاہیے — جیسے کہ تھوک اور خوردہ مارکیٹوں میں اشیاء کی قیمتوں، زراعت یا صنعتی شعبے کی قیمتوں — بلکہ یہ مزدوروں کی ادائیگی یعنی تنخواہیں/اجرت، اور مالیاتی شعبے میں قیمتوں کا احاطہ بھی کرے جس میں سرمایہ کی قیمت، پالیسی کی شرح، یا سود کی شرح، بشمول رہن کی شرح، اور نجی شعبے کے لیے قرضے کی فنڈز کی قیمت شامل ہے۔

فی الحال نہ صرف حقیقی شعبے میں معلومات کی عدم مطابقت بلکہ لیبر مارکیٹ اور مالیاتی شعبے میں بھی قیمتوں کی دریافت پر بہت زیادہ سمجھوتہ کیا جاتا ہے جس کی بنیادی وجہ معاشی ادارہ جاتی معیار کی انتہائی ناقص سطح ہے اور اس کی وجہ حکمرانی اور حوصلہ افزائی کے ڈھانچے کی نمایاں کمزوری ہے۔

اس کے نتیجے میں لین دین کی لاگت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جو صارف کی خریداری کی طاقت کو متاثر کرتی ہے اور پیداوار کے سطح پر کاروبار کے اخراجات میں نمایاں اضافہ کرتی ہے۔

کمزور اقتصادی ادارہ جاتی معیار کے نتیجے میں مارکیٹ کی ناکامیوں سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے ضابطے کی کمی کے ساتھ ساتھ عوامی اور نجی شعبے کے درمیان کسی مشن یا مقصد پر مبنی طریقے سے مل کر بہتر کام کرنے والی مارکیٹیں اور پیداواری مراکز، جیسے کہ خصوصی اقتصادی زونز یا ریاستی ملکیت کے اداروں کی زیادہ مؤثر فعالیت، مثال کے طور پر چین میں مشترکہ ملکیت جیسے ادارے نہ ہونے کی عدم موجودگی بھی ایک وجہ ہے، جس کی وجہ سے کووڈ وبائی امراض جیسے جھٹکوں کے تناظر اور تیزی سے رونما ہونے والے موسمیاتی تبدیلی کے بحران کی وجہ سے اکثر قدرتی آفات، اور جغرافیائی سیاسی طور پر پیدا ہونے والے معاشی بحرانوں کے تناظر میں قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔

مثال کے طور پر عالمی سپلائی بحران کے نتیجے میں کووڈ وبا کے بعد قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا جو کہ ضروری نہیں تھا جبکہ دوسری طرف لیبر مارکیٹ میں مہنگائی کے دباؤ سے بچاؤ کے لیے قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوا۔ مالیاتی شعبے میں قیمتوں کی غلط پالیسی کی وجہ سے اور مجموعی طور پر مالیاتی سختی کی پالیسی کے تحت سرمائے کی قیمت، یعنی سود کی شرح بڑھ گئی، اور اس کا دورانیہ بہت زیادہ رہا۔

مجموعی طور پر، جامع ’قیمتوں کی پالیسی‘ کی کمی نے نہ صرف قیمتوں کے تعین کو بہتر بنانے کی اجازت نہیں دی بلکہ مالیاتی اور لیبر مارکیٹ میں قیمتوں کی ترقی کو بھی مؤثر اور مضبوط طریقے سے حقیقی شعبے میں قیمتوں کے اضافے کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کیا۔

معروف معیشت دان جیمز کے گلبرایت اور ایسابیللا ویبر قیمتوں پر کنٹرول کی ضرورت پر زور دیتے ہیں اور مصنف یقین رکھتے ہیں کہ تجویز کردہ ’قیمتوں کی پالیسی‘ میں قیمتیں کنٹرول کرنے پر بھی مضبوط زور دیا جانا چاہیے۔ یہ کنٹرول نہ صرف قیمتوں میں اضافے اور لالچ کی روک تھام کے لیے ہونا چاہیے بلکہ مارکیٹوں کو زیادہ مؤثر بنانے اور قیمتوں کی بہتر دریافت کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں تجویز کردہ ’قیمتوں کی پالیسی‘ میں چین کے تجربے سے سیکھنا بھی اہم ہو سکتا ہے جس نے ’دوہری قیمتوں‘ کے ماڈل کا کامیابی سے استعمال کیا تاکہ معیشت کے مجموعی طلب اور سپلائی کے پہلوؤں پر مثبت اثرات مرتب کیے جا سکیں۔

’دی بوسٹن گلوب‘ میں 22 اگست کو شائع ہونے والے اپنے مضمون میں جس کے عنوان کا مفہوم ہے “ قیمتوں میں اضافے کے خلاف ہیرس کی جدوجہد اچھی معاشیات ہے“ دونوں ماہرین اقتصادیات نے قیمتوں پر قابو پانے کی ضرورت کی نشاندہی کی، خاص طور پر وبائی امراض کے تناظر میں، بیشتر اوقات قیمتوں میں اضافہ غیر معمولی ہوتا ہے اور ان سے معاملے بہ کیس نمٹا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسے لمحات آتے ہیں جب قیمتوں میں اضافے کا رحجان عام ہوجاتا ہے۔ اگر بنیادی اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے، جیسا کہ 2021-2022 میں ہوا تھا، تو کاروباری منصوبوں میں خلل پڑتا ہے۔

بے یقینی اور خوف نے زور پکڑ لیا ہے۔ کچھ کاروبار اپنے مارجن میں اضافہ کرکے رد عمل ظاہر کریں گے – کیونکہ وہ باہر نکلے بغیر کر سکتے ہیں۔ ان کا مقصد لاگت میں مزید اضافے کی صورت میں ایک کوشن میں رکھنا ہوسکتا ہے۔ دوسرے لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں - جیسا کہ بڑی کمپنیوں نے کیا - جو وہ حاصل کرسکتے ہیں۔ لیکن پھر ان کے گاہکوں کو دبایا جاتا ہے اور سپلائی چین کے ذریعے مارجن کی تلاش شروع ہو جاتی ہے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب عام قیمتوں کے کنٹرول یا رہنما خطوط مدد کرسکتے ہیں۔

Comments

200 حروف