اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے سابق گورنر ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے پاکستان سمیت دیگر ممالک پر زور دیا ہے کہ انہیں قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کے خوف پر قابو پانا ہوگا۔

ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے جمعرات کے روز اپنی متعدد ٹویٹس میں دی اکانومسٹ میں شائع ہونے والی اپنی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جن ممالک کو یقین ہے کہ انہیں قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کی ضرورت نہیں ہے وہ صرف ڈیفالٹ اور سماجی کشمکش کے خطرے کو بڑھا رہے ہیں جبکہ اپنی آبادی کے مستقبل کو گروی رکھ رہے ہیں۔  .

انہوں نے مزید کہا مالی بحران سے بچنے کیلئے ان ممالک کا انحصار قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ پر ہے تاکہ وہ تعلیم، صحت، سرمایہ کاری اور موسمیاتی صورتحال سے موافق سرمایہ کاری کیلئے مالی گنجائش بڑھا سکیں۔

2022 میں اسٹیٹ بینک کے قائم مقام گورنر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر سید کا خیال تھا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے ممالک کو تین پابندیوں سے الگ ہونے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلی پابندی قرض دار حکومتوں کو قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کا غیر معقول خوف ہے، اس خوف پر قابو پایا جا سکتا ہے اگر یہ واضح کیا جائے کہ اس مسئلے کے پیدا ہونے میں بدقسمتی، جیسے کہ کووڈ-19 کی وبا اور ماضی کی حکومتوں کا کردار، شامل ہے۔

ماہرِ معیشت نے کہاکہ قرض دہندگان کی قانونی کارروائی سے تحفظ حاصل کرنا (جیسا کہ عراق 2003 میں ہوا تھا) اور یہ سمجھنا کہ قرض کی ری اسٹرکچرنگ پر مارکیٹ کا جرمانہ درحقیقت عام طور پر سمجھے جانے والے خوف سے کہیں کم اور قلیل مدتی ہوتا ہے (جیسا کہ یوکرین 2015 میں ہوا تھا)، خاص طور پر اگر یہ اقدام ملک کی معاشی ترقی کے امکانات کو بہتر بناتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومتوں کو کم ترجیحی کمرشل قرض کی ری اسٹرکچرنگ سے نہیں ڈرنا چاہیے، کیونکہ اس قرض پر لاگت زیادہ ہوتی ہے اور یہ خاص طور پر اس کریڈٹ رسک اور جہاں مقامی قرضے کی ری اسٹرکچرنگ کی ضرورت ہو کی وجہ سے ہوتا ہے۔ قبرص، جمیکا اور سیشلز نے دکھایا ہے کہ مالیاتی خطرہ پیدا کیے بغیر یہ کیسے کیا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر سید مرتضیٰ کے مطابق دوسرا ممنوعہ نظریہ جسے توڑنے کی ضرورت ہے وہ ہے نئے سرکاری قرض دہندگان، جیسے چین اور خلیجی ممالک، کے مفادات کو تسلیم کرنا اور عالمی بینکوں سےرعایت حاصل کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نئے قرض دہندگان کو یہ حق دے کر آمادہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اجتماعی کارروائی کے وہی حقوق حاصل کریں جو پیرس کلب کو دیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عالمی ادارے اپنے قرض کی ادائیگی مؤخر کرسکتے ہیں۔ انہوں نے 1990 کی دہائی کے اواخر اور 2000 کی دہائی کے اوائل میں ایچ آئی پی سی اور ایم ڈی آر آئی کے اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جہاں ان کے شیئر ہولڈرز میں سیاسی عزم ہے، وہاں وہ قرضوں میں مضبوط ریلیف بھی فراہم کرسکتے ہیں۔

آخر میں ڈاکٹر سید مرتضیٰ نے کہا کہ تیسرا ممنوعہ نظریہ یہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو اس کے مؤثر قرض پائیداری کے جائزہ کے نظام اور بین الاقوامی تحقیق سے فائدہ اٹھا کر یہ واضح کرنے کی اجازت دی جائے کہ کسی ملک کا قرض قابلِ برداشت ہے یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ فی الحال قرض کے بارے میں آئی ایم ایف کے اعلانات غیر واضح اور لچکدار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس مبہم معاملے کو کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، جو بنیادی اصولوں کو نظر انداز کرتی ہیں اور قرض دار ملک سے قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ سے بھاگنے کے معاملے پر خوش ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ س سے قرضوں کی کمزوریوں میں اضافے کے دوران حد سے زیادہ جوش و خروش کی شکل میں ریٹنگ میں نقصان دہ پروسائیکلیٹی پیدا ہوتی ہے اور جب ممالک قرضوں کی تنظیم نو کی کوشش کرکے صحیح کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو نقصان دہ تنزلی ہوتی ہے۔

ڈاکٹر سید مرتضیٰ نے جون بھی اس موضوع پر خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان دنیا کے خطرناک ترین قرضوں کے جال میں سے ایک میں گھرا ہوا ہے۔

Comments

200 حروف