متحدہ عرب امارات نے افغانستان کی طالبان حکومت کے سفیر کی اسناد قبول کر لی ہیں، جو چین کے بعد ایسا کرنے والا دوسرا ملک بن گیا ہے۔
تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ریاست نے کہا ہے کہ وہ افغان عوام کی مدد کے لیے پرعزم ہے، قابل ازیں کابل کی وزارت خارجہ نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا تھا کہ ابوظہبی میں ایک تقریب میں نئے سفیر مولوی بدرالدین حقانی کا استقبال کیا گیا ہے۔
طالبان حکومت کے ساتھ متحدہ عرب امارات کے بڑھتے ہوئے تعلقات میں امریکی افواج کے انخلا اور 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد اماراتی فرم جی اے اے سی کی جانب سے افغان ہوائی اڈوں کا انتظام سبنھالنا شامل ہے۔
سفیر کی تقرری کو طالبان حکام کی فتح کے طور پر دیکھا جائے گا، جو بین الاقوامی سطح پر بڑے پیمانے پر الگ تھلگ ہیں اور اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ حکومت نہیں ہیں۔
متحدہ عرب امارات کے ایک عہدیدار نے اے ایف پی کو بھیجے گئے ایک بیان میں کہا کہ دنیا گزشتہ چند برسوں کے دوران افغانستان کو درپیش چیلنجز کو تسلیم کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کے سفیر کی اسناد قبول کرنے کا فیصلہ افغانستان کے عوام کی مدد کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے ہمارے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات ”ترقیاتی اور تعمیر نو کے منصوبوں کے ذریعے انسانی امداد فراہم کرنے“ اور ”علاقائی کشیدگی میں کمی اور استحکام“ کی کوششوں کی حمایت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
متحدہ عرب امارات پاکستان اور سعودی عرب کے ساتھ ان تین ممالک میں سے ایک تھا جنہوں نے 2001 میں امریکی قیادت میں ہونے والے حملے سے پہلے طالبان کی سابقہ حکومت کو تسلیم کیا تھا۔
یہ ان مٹھی بھر ممالک میں سے ایک ہے جہاں طالبان کی سفارتی موجودگی ہے، جن میں ایران، پاکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور قازقستان شامل ہیں۔
نکاراگوا نے جون میں افغانستان میں ایک نان ریزیڈنٹ سفیر مقرر کیا تھا۔
گزشتہ ہفتے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان نے افغانستان کے وزیر اعظم سے ملاقات کی تھی جب وہ اماراتی اسپتال میں زیر علاج تھے۔
جون میں متحدہ عرب امارات کے صدر نے افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کی میزبانی کی تھی، جو امریکی حکام کو مطلوب ہیں اور ان کی گرفتاری کے لیے معلومات فراہم کرنے والے پر ایک کروڑ ڈالر کا انعام رکھا گیا ہے۔
Comments