پاکستان

پاور ڈویژن آئی پی پیز معاہدے شیئر کرنے پر آمادہ

  • پنجاب کی ڈسکوز کو سالانہ 150 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے، قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے توانائی کو بریفنگ
شائع August 17, 2024

پاور ڈویژن نے قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے توانائی کو انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے معاہدوں کی تفصیلات عوامی یا ان کیمرہ فراہم کرنے کی رضامندی ظاہر کی ہے جس کا مقصد کمیٹی کو مستقبل میں کیے جانے والے اقدامات کے حوالے سے اعتماد میں لیا جا سکے۔

کمیٹی کے سامنے نئے تعینات ہونے والے سیکرٹری توانائی ڈاکٹر محمد فخر عالم عرفان نے کہا کہ پاور ڈویژن کمیٹی کے ساتھ آئی پی پیز کی مکمل تفصیلات ایک خصوصی اجلاس میں شیئر کرنے کے لیے تیار ہے۔

تاہم ابتدائی طور پر کمیٹی کے ان ارکان کو بریفنگ دی جائیگی جو آئی پی پیز کے بارے میں کچھ معلومات رکھتے ہیں ، بعد میں اس معاملے کو پوری کمیٹی کے سامنے یا تو عوامی طور پر یا ان کیمرہ رکھا جائے گا۔ اس موقع پرڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے اس تجویزکی مخالفت کی اور کہا کہ اس معاملے کو عوامی طور پر یا ان کیمرہ چند اراکین کے بجائے پوری کمیٹی کے سامنے رکھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ تمام اراکین کے ذہنوں میں موجود غلط فہمیوں کو دور کرنا ضروری ہے۔

دھرنے کے دوران جماعت اسلامی کے ساتھ مذاکرات کرنے والی حکومتی ٹیم میں شامل ڈاکٹر چوہدری نے کہا کہ آئی پی پیز عوام کا خون چوس رہے ہیں لہذا معاہدوں کو کمیٹی کے سامنے رکھا جائے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے جماعت اسلامی کو آگاہ کیا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کی شرائط کو مدنظر رکھتے ہوئے آئی پی پیز کے حوالے سے کس حد تک جاسکتی ہے اور صارفین کو ٹیرف میں ریلیف فراہم کرسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت عوام کو ریلیف دینے کے لئے اقدامات کرنا چاہتی ہے لیکن کچھ دیگر معاملات کی وجہ سے ایسا کرنے سے قاصر ہے، ہم آئی ایم ایف کی تلوار کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات کریں گے۔

ایم این اے شیخ آفتاب کے جواب میں سیکرٹری توانائی نے کہا کہ اس وقت بڑھے ہوئے بلوں کی بنیادی وجہ ڈالر میں گنجائش کی ادائیگی اور ڈسکوز کے نقصانات ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ آئی ایم ایف کے دباؤ کی وجہ سے کیا گیا جو صارفین سے لاگت کی مکمل وصولی چاہتا ہے۔

آئی ایم ایف نے پاور سیکٹر کے گردشی قرضوں کی حد 2.310 ٹریلین روپے مقرر کی ہے جس سے حکومت تجاوز نہیں کرسکتی۔

انہوں نے کہا کہ ہم آئی ایم ایف سے بات کرتے ہیں لیکن وہ ہماری بات پر توجہ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام معیشت کے استحکام کیلئے ضروری ہے۔

ڈسکوز کی نجکاری کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سیکرٹری توانائی نے کہا کہ حکومت بجلی کے کاروبار سے نکلنا چاہتی ہے۔ پہلے مرحلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی تین ڈسکوز یعنی آئیسکو، فیسکو اور گیپکو کو نجکاری یا طویل مدتی انتظامی معاہدوں پر منتخب کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان تینوں ڈسکوز کی نجکاری سے سرکاری خزانے پر مالی بوجھ کم ہوگا، خسارے میں چلنے والی کمپنیوں کے سسٹم میں کچھ سرمایہ کاری کے بعد ان کی نجکاری کی جائے گی۔

کمیٹی کو مزید بتایا گیا کہ پنجاب کی ڈسکوز کو سالانہ 150 ارب روپے کا مالی خسارہ ہورہا ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ 500 ارب روپے کے خسارے میں سے حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (ایچ ای ایس سی) کا حصہ 205 ارب روپے ہے۔ حیسکو میں 318 فیڈرز 80 فیصد نقصان پر کام کررہے ہیں اور سالانہ ریکوری 75 فیصد ہے۔

نیپرا نے ٹیرف میں شامل ڈسکوز کو اوسطا 11 فیصد جب کہ کے الیکٹرک کو 15 فیصد نقصان کی اجازت دی ہے۔ کے الیکٹرک نے نجکاری کے وقت اپنے نقصانات کو تقریبا 40 فیصد سے کم کرکے 15 فیصد کردیا ہے۔

کے الیکٹرک کے سی ای او سید مونس عبداللہ علوی نے کہا کہ اگر نجکاری کے وقت کے الیکٹرک کا 40 فیصد نقصان جاری رہتا تو اس کا مالی اثر بجلی شعبے کے مجموعی گردشی قرضوں کی موجودہ سطح کے برابر ہوتا۔

کے الیکٹرک کی چیف ڈسٹری بیوشن آفیسر سعدیہ دادا نے کمیٹی کو بتایا کہ کے الیکٹرک کو گزشتہ سال چوری کی وجہ سے 30 ارب روپے کا مالی نقصان ہوا اور یہ اس کی بیلنس شیٹ کا حصہ ہے۔ گزشتہ سال کے الیکٹرک کی طلب 3500 میگاواٹ تھی جس میں سے حکومت نے 1100 میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ سے فراہم کی۔

پاور ڈویژن حکام اور سی ای او کے الیکٹرک کی جانب سے وضاحت کی گئی کہ ملک بھر میں یکساں ٹیرف برقرار رکھنے کے لیے صارفین کو سبسڈی دی جاتی ہے، کمپنیوں کو نہیں دی جاتی۔

کمیٹی کے کمرے میں پی ٹی آئی کے ایم این اے عامر ڈوگر کی طرف سے گائے گئے دل دل پاکستان کے پیروڈی بل بل پاکستان کے مسئلے کی گونج سنائی دی۔

جوائنٹ سیکرٹری پاور ڈویژن نے کمیٹی کو کراچی میں بجلی کی اوور بلنگ اور غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے بریفنگ دی۔ انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ بجلی کی پیداوار کا ذریعہ ہر علاقے میں یکساں نہیں ہے۔ کراچی میں بجلی کی پیداوار تھرمل وسائل کے ذریعے ہوتی ہے جو بجلی کی پیداوار کی مہنگی شکلوں میں سے ایک ہے۔

کمیٹی نے اوور بلنگ کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کیا جس کی وجہ سے صارفین کو بھاری بل ادا کرنے پڑرہے ہیں، اجلاس میں ایم این ایز نے شرکت کی۔ اجلاس میں ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، شیخ آفتاب احمد، راجہ قمرالاسلام، چوہدری نصیر احمد عباس، سیدہ نوشین افتخار، رانا محمد حیات خان، محمد شہریار خان مہر، خورشید احمد جونیجو، نعمان اسلام شیخ، سید ابر علی شاہ، سید وسیم حسین، جنید اکبر، شیر علی ارباب ودیگر بھی موجود تھے۔

اجلاس میں وزارت توانائی اور اس سے منسلک محکموں کے سینئر افسران نے بھی شرکت کی۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف