جمعرات کو پاکستان کے ایتھلیٹ ارشد ندیم کو اولمپک گیمز کے فائنل میں حصہ لیتے ہوئے دیکھنے کے لیے ان کے گھر کے سامنے درجنوں دیہاتی جمع ہو گئے۔

اس کھیل کے مقابلے کو صوبہ پنجاب کے چھوٹے سے شہر میاں چنوں کے قریب ان کے گاؤں میں ایک ٹرک کی پشت پر لٹکی ہوئی سکرین پر ایک ڈیجیٹل پروجیکٹر کے ذریعے براہ راست نشر کیا گیا۔

جب پیرس میں جیولن آسمان میں بلند ہوا اور ارشد ندیم کے لیے ایک نئے اولمپک ریکارڈ اور سونے کے تمغے کا باعث بنا، تو ہزاروں کلومیٹر دور دیہاتیوں کی خوشی کی آوازیں رات کی تاریکی میں گونج اٹھیں۔

 ۔
۔

انہوں نے ایک عظیم کارنامہ انجام دیا اور تاریخ رقم کی۔ ارشد ندیم کے 35 سالہ بھائی محمد عظیم نے کہا کہ ہمیں اس پر فخر ہے۔

مردوں نے ڈھول کی تھاپ پر رقص کیا اور دوسروں نے تالیاں بجائیں اور نعرے لگائے کیونکہ یہ واضح ہوگیا کہ وہ جیت گئے ہیں۔

دریں اثنا، عورتیں ارشد ندیم کے گھر کے اندر ایک چھوٹے سے ٹی وی کے ارد گرد بیٹھی تھیں۔

ان کی والدہ رضیہ پروین نے کہا کہ انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اچھا کھیلیں گے، بیرون ملک جائیں گے، تمغہ جیتیں گے اور پاکستان کا نام روشن کریں گے۔

خستہ حال سامان کے ساتھ پریکٹس کرنے اور اپنے بین الاقوامی حریفوں کی طرح جم اور تربیتی مراکز تک محدود رسائی کے باوجود ارشد ندیم نے پاکستان کو 40 سال میں پہلا اولمپک گولڈ میڈل دلایا تھا۔

پہلے کرکٹ کی طرف راغبت تھی

ان کا تعلق میاں چنوں سے ہے۔ ارشد ندیم کے سابق کوچ رشید احمد نے کہا کہ ان کا تعلق ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہے اور انہوں نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا قومی پرچم بلند کردیا۔

ایک ریٹائرڈ تعمیراتی کارکن کا بیٹا، 27 سالہ ارشد ندیم آٹھ بہن بھائیوں میں سے تیسرا ہے اور زیادہ تر پاکستانیوں کی طرح پہلے کرکٹ کی طرف راغب تھا۔

ارشد ندیم کے بڑے بھائی شاہد ندیم کا کہنا ہے کہ میں نے ارشد کو ایک ایسے وقت میں کرکٹ سے جیولین کھیلنے پر مجبور کیا جب کسی کو معلوم نہیں تھا کہ جیولین کیا ہوتا ہے۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، وہ اس جیولین کو اولمپکس میں لے گئے، ایک نیا ریکارڈ قائم کیا اور سونے کا تمغہ جیتا۔

ریٹائرڈ مقامی اسپورٹس آفیسر پرویز احمد ڈوگر نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں ارشد ندیم کیلئے پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

ڈوگر یاد کرتے ہیں کہ کھلاڑی لکڑی کی چھڑیوں کا استعمال کرتے تھے جن کے ارد گرد رسی بندھی ہوتی تھی جیسے کہ ایک نیزہ۔ وہ کبھی بھی نوک کے بل نہیں گرتے تھے۔

پاکستان میں ٹریک اینڈ فیلڈ کے لیے مناسب گراؤنڈ نہیں ہے اس لیے کھلاڑیوں کو کرکٹ کے میدان میں ٹریننگ کرنی پڑتی ہے۔

مارچ میں ارشد ندیم نے انکشاف کیا کہ ان کے پاس صرف ایک جیولین ہے، جسے وہ گزشتہ سات سالوں سے استعمال کر رہے ہیں اور وہ بھی خراب ہو چکا تھا۔

جیت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے ارشد ندیم نے کہا کہ یہ جدوجہد قابل فخر ہے۔

 ۔
۔

انہوں نے کہا کہ جب میں نے جیولین پھینکا، تو مجھے اس کے میرے ہاتھ سے نکلنے کا احساس ہوا اور میں نے محسوس کیا کہ یہ ایک اولمپک ریکارڈ ہو سکتا ہے۔

میاں چنوں میں مقامی لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا۔

Comments

200 حروف