نوبل انعام یافتہ محمد یونس نے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی قیادت کا حلف اٹھا لیا

  • محمد یونس نے حسینہ واجد کی حکومت کا خاتمہ دوسری آزادی قرار دیدیا
شائع August 8, 2024

نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس نے جمعرات کو اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ بنگلہ دیش کو جمہوریت کی طرف واپس لے جائیں گے۔

محمد یونس، جنہوں نے جمعرات کے روز حسینہ واجد کا تختہ الٹنے کو بنگلہ دیش کی ”دوسری آزادی“ قرار دیا تھا، نے صدارتی محل میں سیاسی اور سول سوسائٹی کے رہنماؤں، جرنیلوں اور سفارت کاروں کے سامنے ”آئین کی پاسداری، حمایت اور حفاظت“ کی قسم کھائی۔

یورپ سے ڈھاکہ لوٹنے سے چند گھنٹے قبل 84 سالہ یونس نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ آج ہمارے لیے ایک شاندار دن ہے۔

انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش نے فتح کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ بنگلہ دیش کو دوسری آزادی ملی ہے۔

یونس نے کئی ہفتوں تک جاری رہنے والے پرتشدد واقعات کے بعد امن و امان کی بحالی کا مطالبہ کیا تھا۔ ان واقعات میں کم از کم 455 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ انہوں نے شہریوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ایک دوسرے کی حفاظت کریں جن میں اقلیتیں بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امن و امان اولین ترجیح ہے، جب تک ہم امن و امان کی صورتحال کو ٹھیک نہیں کرتے تب تک ہم ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا سکتے۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں سے میری اپیل ہے کہ اگر آپ کو مجھ پر بھروسہ ہے تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ ملک میں کہیں بھی کسی کے خلاف حملہ نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ ہر شخص ہمارا بھائی ہے، ہمارا کام ان کی حفاظت کرنا ہے اور پورا بنگلہ دیش ایک بڑا خاندان ہے۔

ان کی کابینہ کے ایک درجن سے زائد ارکان نے بھی حلف اٹھایا، جنہیں وزراء نہیں بلکہ مشیر کا عہدہ دیا گیا ہے۔

ان میں کئی ہفتوں تک جاری احتجاج کی قیادت کرنے والے اسٹوڈنٹس اگینسٹ ڈسکریمینیشن گروپ کے سرکردہ رہنما ناہید اسلام اور آصف محمود بھی شامل ہیں۔

دیگر میں ایک سابق سیکریٹری خارجہ، ایک سابق اٹارنی جنرل، ایک موسمیاتی وکیل اور انسانی حقوق کے معروف کارکن عادل الرحمن خان شامل تھے جنہیں حسینہ واجد کے دور حکومت میں دو سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

حسینہ واجد پر سیاسی مخالفین کو جیل بھیجنے سمیت بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزمات ہیں تاہم وہ پیر کے روز اس وقت پڑوسی ملک بھارت بھاگنے پر مجبور ہوئیں جب مظاہرین کی بڑی تعداد ڈھاکہ کی سڑکوں پر جمع ہو گئی تھی۔

اس کے بعد فوج نے طلبہ رہنماؤں کے اس مطالبے پر رضامندی ظاہر کی کہ یونس کو 2006 میں مائیکرو فنانسنگ کے لیے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا اور وہ عبوری حکومت کی قیادت کریں۔

محمد یونس پر جمعرات کے روز اس وقت جذبات غالب آگئے تھے جب انہوں نے طالب علم کارکن ابو سعید کے قتل کو یاد کیا، جسے جولائی میں پولیس نے قریب سے گولی مار کر جاں بحق کر دیا تھا۔

انہوں نے احتجاجی تحریک چلانے والے نوجوانوں اور تبدیلی کی خواہش کے لئے سب کچھ خطرے میں ڈالنے والوں کو خراج تحسین پیش کیا۔

انہوں نے کہا، “انہوں نے قوم کی حفاظت کی اور اسے ایک نئی زندگی دی۔

انہوں نے احتجاجی تحریک چلانے والے نوجوانوں اور تبدیلی کی خواہش کے لئے سب کچھ خطرے میں ڈالنے والوں کو خراج تحسین پیش کیا۔

انہوں نے کہاکہ ان لوگوں نے قوم کی حفاظت کی اور اسے ایک نئی زندگی دی۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے محمد یونس خان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئی دہلی ہمسایہ ملک ڈھاکہ کے ساتھ کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

’بہترین جمہوری عمل‘

حسینہ واجد کے دور حکومت میں یونس پر 100 سے زائد مجرمانہ مقدمات درج کیے گئے تھے اور ریاست کی زیر قیادت ایک اسلامی ادارے نے ان پر ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کا الزام عائد کیا تھا۔

یونس اس سال ضمانت پر بیرون ملک گئے تھے جب انہیں سیاسی محرکات پر مبنی الزام میں چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی اور ڈھاکہ کی ایک عدالت نے منگل کے روز انہیں بری کر دیا تھا۔

آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے بدھ کے روز کہا تھا کہ وہ یونس کی حمایت کرتے ہیں۔

وقارالزمان نے کہاکہ مجھے یقین ہے کہ وہ ہمیں ایک بہترین جمہوری عمل کے ذریعے آگے لیکر جانے میں کامیاب ہوں گے۔

مجوزہ حکومت کے بارے میں کچھ دیگر تفصیلات جاری کی گئی ہیں جن میں فوج کا کردار بھی شامل ہے۔

تاہم بنگلہ دیشی عوام نے بدھ کے روز ڈھاکہ میں سابق اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) کے حق میں ایک ریلی میں شرکت کرتے ہوئے امید کا اظہار کیا۔

معین الاسلام پنٹو نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ مجھے امید ہے کہ ایک قومی حکومت سب کی رضامندی سے خوبصورت انداز میں تشکیل دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ ملک کو اچھے طریقے سے چلایا جائے گا اور پولیس فورس میں اصلاحات کی جائیں گی تاکہ وہ لوگوں کو ہراساں نہ کر سکیں۔

پیر کے روز ہونے والے واقعات ایک ماہ سے زائد عرصے سے جاری بدامنی کا نتیجہ تھے، جو سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ کے منصوبے کے خلاف احتجاج کے طور پر شروع ہوئی تھی لیکن حسینہ مخالف تحریک میں تبدیل ہو گئی۔

انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے تجزیہ کار تھامس کین کا کہنا ہے کہ یہ مظاہرے بنگلہ دیش کی تاریخ کا ایک اہم لمحہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک کو ون پارٹی اسٹیٹ بننے کا خطرہ لاحق تھا اور 20 سال کی عمر کے ”جنریشن زیڈ“ کے طالب علموں کی قیادت میں شہری سڑکوں پر پرامن تحریک کے ذریعے حسینہ واجد کو اقتدار سے ہٹانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

فوجی کارروائی

فوج کی جانب سے وفاداری تبدیل کرنا حکومتی تختہ دھڑن ہونے کا اہم عنصر تھا۔ اس کے بعد سے فوج نے طلبہ رہنماؤں کے متعدد دیگر مطالبات کو قبول کر لیا ہے۔

صدر نے منگل کے روز پارلیمنٹ تحلیل کر دی تھی جو طلبہ اور بی این پی کا ایک اہم مطالبہ تھا۔

پولیس فورس کے سربراہ، جسے مظاہرین نے حسینہ واجد کے کریک ڈاؤن کی قیادت کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے، کو منگل کے روز برطرف کر دیا گیا تھا۔

نئے سربراہ معین الاسلام نے بدھ کے روز افسران کے طرز عمل پر معافی مانگی اور ’طلبا، عام لوگوں اور پولیس‘ کے قتل کی ’منصفانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات‘ کا عہد کیا۔

سابق وزیر اعظم اور بی این پی کی چیئرپرسن 78 سالہ خالدہ ضیاء کو بھی کئی سالوں کی نظر بندی سے رہا کر دیا گیا جبکہ کچھ سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔

فوج نے حسینہ واجد کے قریبی سمجھے جانے والے کچھ جرنیلوں اور ریپڈ ایکشن بٹالین نیم فوجی فورس کے کمانڈر ضیاء الاحسن کو برطرف کر دیا ہے۔

Comments

200 حروف