نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس جمعرات کو بنگلہ دیش پہنچ گئے ہیں جہاں وہ طلبہ کی قیادت میں بغاوت کے نتیجے میں حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد جمہوری عمل بحال کرنے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے حکومت کے خاتمے کو دوسری آزادی قرار دیتے ہوئے اس پر اظہار مسرت کیا ہے۔

یونس ایک نگران حکومت کے سربراہ ہوں گے جو فوج کی جانب سے قائم کی جا رہی ہے، جس نے ہفتے کے آخر میں بدامنی میں سیکڑوں افراد کی ہلاکت کے بعد حسینہ واجد کا تختہ الٹ دیا تھا۔

یورپ سے واپسی کے فوراً بعد ڈھاکہ کے ہوائی اڈے پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے 84 سالہ یونس نے کہا آج ہمارے لیے ایک شاندار دن ہے۔

انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش نے ایک اور فتح کی بنیاد رکھی ہے، بنگلہ دیش کو دوسری آزادی ملی ہے۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں سے میری اپیل ہے کہ اگر آپ کو مجھ پر بھروسہ ہے تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ ملک میں کہیں بھی کسی کے خلاف حملہ نہ ہو۔

محمد یونس جمعرات کی شام تک ملک کے نئے رہنما کے طور پر حلف اٹھا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہر شخص ہمارا بھائی ہے، ہمارا کام ان کی حفاظت کرنا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ پورا بنگلہ دیش ایک بڑا خاندان ہے۔

حسینہ واجد پر سیاسی مخالفین کو جیل بھیجنے سمیت بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزمات ہیں تاہم وہ پیر کے روز اس وقت پڑوسی ملک بھارت بھاگنے پر مجبور ہوئیں جب مظاہرین کی بڑی تعداد ڈھاکہ کی سڑکوں پر جمع ہو گئی تھی۔

اس کے بعد فوج نے طلبہ رہنماؤں کے اس مطالبے پر رضامندی ظاہر کی کہ یونس کو 2006 میں مائیکرو فنانسنگ کے لیے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا اور وہ عبوری حکومت کی قیادت کریں۔

محمد یونس پر جمعرات کے روز اس وقت جذبات غالب آگئے تھے جب انہوں نے طالب علم کارکن ابو سعید کے قتل کو یاد کیا، جسے جولائی میں پولیس نے قریب سے گولی مار کر جاں بحق کر دیا تھا۔

انہوں نے احتجاجی تحریک چلانے والے نوجوانوں اور تبدیلی کی خواہش کے لئے سب کچھ خطرے میں ڈالنے والوں کو خراج تحسین پیش کیا۔

انہوں نے کہاکہ ان لوگوں نے قوم کی حفاظت کی اور اسے ایک نئی زندگی دی۔

’بہترین جمہوری عمل‘

حسینہ واجد کے دور حکومت میں یونس پر 100 سے زائد مجرمانہ مقدمات درج کیے گئے تھے اور ریاست کی زیر قیادت ایک اسلامی ادارے نے ان پر ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کا الزام عائد کیا تھا۔

یونس اس سال ضمانت پر بیرون ملک گئے تھے جب انہیں سیاسی محرکات پر مبنی الزام میں چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی اور ڈھاکہ کی ایک عدالت نے منگل کے روز انہیں بری کر دیا تھا۔

آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے بدھ کے روز کہا تھا کہ وہ یونس کی حمایت کرتے ہیں۔

وقارالزمان نے کہاکہ مجھے یقین ہے کہ وہ ہمیں ایک بہترین جمہوری عمل کے ذریعے آگے لیکر جانے میں کامیاب ہوں گے۔

مجوزہ حکومت کے بارے میں کچھ دیگر تفصیلات جاری کی گئی ہیں جن میں فوج کا کردار بھی شامل ہے۔

تاہم بنگلہ دیشی عوام نے بدھ کے روز ڈھاکہ میں سابق اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) کے حق میں ایک ریلی میں شرکت کرتے ہوئے امید کا اظہار کیا۔

معین الاسلام پنٹو نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ مجھے امید ہے کہ ایک قومی حکومت سب کی رضامندی سے خوبصورت انداز میں تشکیل دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ ملک کو اچھے طریقے سے چلایا جائے گا اور پولیس فورس میں اصلاحات کی جائیں گی تاکہ وہ لوگوں کو ہراساں نہ کر سکیں۔

پیر کے روز ہونے والے واقعات ایک ماہ سے زائد عرصے سے جاری بدامنی کا نتیجہ تھے، جو سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ کے منصوبے کے خلاف احتجاج کے طور پر شروع ہوئی تھی لیکن حسینہ مخالف تحریک میں تبدیل ہو گئی۔

انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے تجزیہ کار تھامس کین کا کہنا ہے کہ یہ مظاہرے بنگلہ دیش کی تاریخ کا ایک اہم لمحہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک کو ون پارٹی اسٹیٹ بننے کا خطرہ لاحق تھا اور 20 سال کی عمر کے ”جنریشن زیڈ“ کے طالب علموں کی قیادت میں شہری سڑکوں پر پرامن تحریک کے ذریعے حسینہ واجد کو اقتدار سے ہٹانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

فوجی کارروائی

فوج کی جانب سے وفاداری تبدیل کرنا حکومتی تختہ دھڑن ہونے کا اہم عنصر تھا۔

اس کے بعد سے فوج نے طلبہ رہنماؤں کے متعدد دیگر مطالبات کو قبول کر لیا ہے۔

صدر نے منگل کے روز پارلیمنٹ تحلیل کر دی تھی جو طلبہ اور بی این پی کا ایک اہم مطالبہ تھا۔

پولیس فورس کے سربراہ، جسے مظاہرین نے حسینہ واجد کے کریک ڈاؤن کی قیادت کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے، کو منگل کے روز برطرف کر دیا گیا تھا۔

نئے سربراہ معین الاسلام نے بدھ کے روز افسران کے طرز عمل پر معافی مانگی اور ’طلبا، عام لوگوں اور پولیس‘ کے قتل کی ’منصفانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات‘ کا عہد کیا۔

سابق وزیر اعظم اور بی این پی کی چیئرپرسن 78 سالہ خالدہ ضیاء کو بھی کئی سالوں کی نظر بندی سے رہا کر دیا گیا جبکہ کچھ سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔

فوج نے حسینہ واجد کے قریبی سمجھے جانے والے کچھ جرنیلوں اور ریپڈ ایکشن بٹالین نیم فوجی فورس کے کمانڈر ضیاء الاحسن کو برطرف کر دیا ہے۔

Comments

200 حروف