پاکستان

اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں 100 بیسس پوائنٹس کی کمی کردی، 19.5 فیصد مقرر

  • تجزیہ کاروں کی اکثریت نے بنیادی پالیسی ریٹ میں کٹوتی کی توقع کی تھی
شائع July 29, 2024

اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے بنیادی پالیسی ریٹ میں 100 بیسس پوائنٹس کی کمی کردی ہے جس کے بعد شرح سود 19.5 فیصد ہوگئی ہے۔

گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے نوٹ کیا ہے کہ مہنگائی میں کمی کا رجحان ہے۔

ایم پی سی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ جون 2024 میں افراط زر کی شرح توقع سے قدرے بہتر رہی۔

اسٹیٹ بینک کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ کمیٹی نے یہ بھی جائزہ لیا کہ مالی سال 25 کے بجٹ اقدامات کے افراط زر کے اثرات پہلے کی توقعات کے عین مطابق تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیرونی کھاتوں میں بہتری کا سلسلہ جاری ہے، جس کی عکاسی قرضوں اور دیگر واجبات کی خاطر خواہ ادائیگیوں کے باوجود اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے سے ہوتی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ان پیش رفتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اور قابل ذکر مثبت حقیقی شرح سود کو مدنظر رکھتے ہوئے کمیٹی نے دیکھا کہ افراط زر کے دباؤ کو قابو میں رکھتے ہوئے معاشی سرگرمیوں کو سہارا دینے کے لیے پالیسی ریٹ کو مزید کم کرنے کی گنجائش موجود ہے۔

ایم پی سی کا خیال تھا کہ شرح سود میں حالیہ کٹوتی کے باوجود مانیٹری پالیسی افراط زر کو 5 سے 7 فیصد کے درمیانی مدت کے ہدف کی طرف لے جانے کے لئے کافی سخت ہے۔

یہ اندازے ہدف شدہ مالی استحکام ، منصوبہ بند بیرونی سرمایہ کاری کے بروقت حصول اور ساختی اصلاحات کے ذریعے معیشت کی بنیادی کمزوریوں کو دور کرنے پر بھی منحصر ہیں۔

کمیٹی نے کہا کہ جولائی میں کیے گئے سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ افراط زر کی توقعات کے ساتھ صارفین اور کاروباری اداروں دونوں کے اعتماد میں کمی آئی ہے۔

اپنی پریس کانفرنس کے دوران اسٹیٹ بینک کے سربراہ نے کہا کہ مرکزی بینک کو توقع ہے کہ مالی سال 25 میں پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو 2.5 سے 3.5 فیصد ریکارڈ کی جائے گی۔

پس منظر

وفاقی بجٹ اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ عملے کی سطح کے معاہدے پر دستخط کے بعد آج پہلا پالیسی اجلاس تھا۔

افراط زر کی شرح میں نمایاں کمی اور دنیا بھر میں مرکزی بینکوں کی جانب سے پالیسی ریٹ میں کٹوتی کے آغاز کے بعد مارکیٹ کی اکثریت کو توقع تھی کہ پاکستان کا مرکزی بینک اپنی مالیاتی پالیسی میں مزید نرمی کرے گا۔

اس سے قبل 10 جون کو ہونے والے اجلاس میں اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں 150 بیسس پوائنٹس (بی پی ایس) کی کمی کا فیصلہ کیا جس کے بعد یہ 20.5 فیصد کی سطح پرآگیا۔ یاد رہے کہ گزشتہ چار سال میں مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں یہ پہلی کٹوتی تھی۔

حکومت کی جانب سے گرتی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے بیل آؤٹ پیکج کے تحت سخت اصلاحات نافذ کرنے کے بعد گزشتہ دو سال سے جنوبی ایشیائی ملک میں معاشی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں۔

تاہم یہ مرحلہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے کیونکہ اسلام آباد نے اس سال کے اوائل میں ایک قلیل مدتی پروگرام مکمل کرنے کے بعد بین الاقوامی قرض دہندہ کے ساتھ ایک بار پھر ایک نئے طویل مدتی بیل آؤٹ معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس سے قوم کو ڈیفالٹ سے بچنے میں مدد ملی ہے۔

رواں ماہ کے اوائل میں آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام نے 7 ارب ڈالر کے 37 ماہ کے قرض پروگرام کے لیے عملے کی سطح کے معاہدے (ایس ایل اے) پر دستخط کیے تھے جس کا مقصد استحکام اور جامع ترقی کو مستحکم کرنا تھا۔

تجزیہ کاروں کی توقعات

مارکیٹ کے ماہرین کی اکثریت کا خیال ہے کہ مرکزی بینک افراط زر کی شرح میں کمی کے پیش نظر مانیٹری پالیسی میں نرمی کرسکتا ہے ۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سی پی آئی افراط زر میں کمی، قابل انتظام کرنٹ اکاؤنٹ، مستحکم کرنسی اور بہتر بیرونی ذخائر سمیت دیگرپیش رفت شرح سود میں کمی کی وکالت کرنے والے عوامل ہوسکتے ہیں۔

بروکریج ہاؤس عارف حبیب لمیٹڈ (اے ایچ ایل) کی ایک رپورٹ جس میں ایک سروے کے نتائج کا حوالہ دیا گیا ۔ سروے میں 55.7 فیصد جواب دہندگان کو توقع ہے کہ مرکزی بینک پالیسی ریٹ میں کمی کرے گا- مارکیٹ کے جذبات بھی ایس بی پیز کی مانیٹری پالیسی میں مزید نرمی کی توقعات کی نشاندہی کرتے ہیں۔

اے ایچ ایل نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ہم 100 بی پی ایس کٹوتی کی توقع کررہے ہیں جس سے پالیسی ریٹ کو 19.5 فیصد تک لایا جاسکتا ہے جو مارچ 2023 کے بعد سے نہیں دیکھا گیا ۔

بروکریج ہاؤس نے کہا کہ گزشتہ ایم پی سی کے بعد سے دو اہم واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں مالی سال 25 کے بجٹ کا اعلان اور آئی ایم ایف کے ساتھ 7 ارب ڈالر مالیت کے 37 ماہ کے نئے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) پروگرام میں پاکستان کی شمولیت ہے۔

اس کے علاوہ میکرو اکنامک اشاریوں میں حالیہ دنوں میں بہتری نے شرح سود میں کٹوتی کی توقعات کو تقویت دی ہے۔

دریں اثنا ایک اور بروکریج ہاؤس ٹاپ لائن سیکیورٹیز نے بھی اسی طرح کی توقع کی تجویز دی۔

ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے شنکر تلریجا نے ایک رپورٹ میں کہا کہ ہمارا یہ بھی خیال ہے کہ اسٹیٹ بینک افراط زر میں کمی کی وجہ سے اپنے آئندہ اجلاس میں شرح سود کو 100 بی پی ایس کم کرکے 19.5 فیصد کر سکتا ہے۔

گزشتہ ایم پی سی اجلاس

10 جون کو پچھلی میٹنگ میں ایم پی سی نے اپنی کلیدی شرح سود میں 150 بی پی ایس کی کمی کی تھی جو اب تک کی بلند ترین سطح 22 فیصد تھی،جو مارکیٹ کی توقعات کے مطابق تھی۔

ایم پی سی نے اندازہ لگایا کہ مالیاتی استحکام کی مدد سے سخت مانیٹری پالیسی کے موقف کے درمیان بنیادی افراط زر کا دباؤ بھی کم ہورہا ہے۔ اس کی عکاسی بنیادی افراط زر میں مسلسل اعتدال اور تازہ ترین سروے میں صارفین اور کاروباری اداروں دونوں کی افراط زر کی توقعات میں کمی سے ہوتی ہے۔

جون میں آخری ایم پی سی کے بعد سے اقتصادی محاذ پر کئی اہم پیش رفت ہوئی ہے۔

روپے کی قدر میں 0.02 فیصد کی معمولی کمی ہوئی جب کہ پٹرول کی قیمتوں میں تقریباً 3 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔

بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتیں بڑی حد تک مستحکم رہیں جو جغرافیائی سیاسی اتار چڑھاؤ کے باوجود 80 ڈالر فی بیرل کے قریب دیکھی گئیں ۔

ادارہ برائے شماریات کے مطابق جون 2024 میں کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) پر مبنی افراط زر سالانہ بنیاد پر 12.6 فیصد رہا جو مئی کی ریڈنگ سے زیادہ ہے جب یہ 11.8 فیصد تھی۔

علاوہ ازیں مالی سال 2023-24 کے دوران پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 681 ملین ڈالر رہا جو گزشتہ مالی سال کے 3.275 ارب ڈالر کے خسارے کے مقابلے میں 79 فیصد کم ہے۔

اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ ذخائر میں ہفتہ وار بنیادوں پر 39 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی کمی ریکارڈ کی گئی جو 19 جولائی تک 9 ارب 20 کروڑ ڈالر رہی۔

ملک کے مجموعی زرمبادلہ ذخائر 14.33 ارب ڈالر کی سطح پر رہے ۔ کمرشل بینکوں کے ذخائر 5.31 ارب ڈالر ریکارڈ کئے گئے ۔

Comments

200 حروف