پاکستان

زرعی شعبے پر ٹیکس : آئی ایم ایف کا درست سمت میں قدم

  • اسلام آباد کو 7 ارب ڈالر کی ای ایف ایف کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے متعدد شرائط پوری کرنے کی ضرورت ہوگی ، اصلاحات میں ریٹیل، ایکسپورٹ اور زراعت کے شعبوں کو ٹیکس نظام میں مناسب طریقے سے لانا شامل
شائع July 13, 2024

اقتصادی ماہرین نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے زرعی ٹیکس میں اضافے کی کوشش کا خیر مقدم کیا ہے جب پاکستان میں حکام نے جمعہ کو واشنگٹن میں واقع قرض دہندہ کے ساتھ 7 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔

گزشتہ پروگرامز کی طرح اب اسلام آباد کو بھی مطلوبہ فنڈز حاصل کرنے کے لیے کئی شرائط طے کرنا ہوں گی جن میں مالی استحکام، مناسب مانیٹری پالیسی، لچکدار شرح تبادلہ اور توانائی کے شعبے میں اصلاحات شامل ہیں۔

تاہم اس بار ایک نئی شرط اس فہرست میں شامل ہوئی جو توجہ کا مرکز ہے ، جس کا مقصد ملک کے زرعی شعبے کو ٹیکس کے نظام میں مناسب طریقے سے لانا تھا۔

آئی ایم ایف نے اپنے بیان میں کہا کہ تمام صوبے وفاقی ذاتی اور کارپوریٹ انکم ٹیکس نظام کے ساتھ قانون سازی میں تبدیلیوں کے ذریعے اپنے زرعی انکم ٹیکس نظام کو مکمل طور پر ہم آہنگ کرنے کے لئے پرعزم ہیں اور یہ یکم جنوری 2025 سے نافذ العمل ہوگا۔

عارف حبیب لمیٹڈ (اے ایچ ایل) میں ایکویٹیز کے سربراہ طاہر عباس نے آئی ایم ایف کے مطالبے کو درست سمت میں اٹھایا گیا قدم قرار دیا۔

انہوں نے بزنس ریکارڈر کو بتایا کہ اس سے ملک کے ٹیکس نیٹ کو وسیع کیا جائے گا اور فائلرز کی تعداد میں اضافہ ہوگا جبکہ ٹیکس چوری میں بھی کمی آئے گی۔

اس وقت پاکستان میں زراعت کا شعبہ ملک کی جی ڈی پی میں 22 فیصد حصہ ڈالتا ہے اور اس کی افرادی قوت کا ایک تہائی ملازمین ہیں۔

تاہم اس شعبے کے حجم کے باوجود، قومی خزانے میں اس کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

طاہر نے کہا کہ ہم ملک میں پورے زرعی شعبے سے صرف 3 ارب روپے جمع کرتے ہیں جبکہ حکومت تنخواہ دار طبقے سے 230 سے 250 ارب روپے وصول کرتی ہے۔

عالمی بینک کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر زرعی شعبے کی صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لایا جائے تو پاکستان ایک ٹریلین روپے سے زائد اضافی ٹیکس ریونیو جمع کرسکتا ہے۔

پاکستان میں اس وقت زرعی شعبے پر ٹیکس عائد ہے لیکن وفاقی سطح پر نہیں بلکہ صوبائی سطح پر۔

اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف نے تجویز دی ہے کہ پاکستان غیر تنخواہ دار افراد کے ٹیکس ڈھانچے کے مطابق زرعی شعبے پر ٹیکس عائد کرے ۔ جے ایس گلوبل میں ریسرچ کی سربراہ امرین سورانی نے ہفتے کو ایک رپورٹ میں لکھا کہ اگر ایسا ہے تو اس نئے ڈھانچے میں سب سے زیادہ موثر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے بڑھا کر 45 فیصد کر دی گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ مالی محاذ پر مجوزہ اصلاحات ایک اہم گیم چینجر ثابت ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں جب کہ پاکستان کی مالی صحت کو بہتر بنانے کا ایک اہم موقع بھی پیش کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبوں کی جانب سے لگائے جانے والے زرعی ٹیکسں میں کوئی بھی اضافہ براہ راست قومی سرپلس میں تبدیل ہوگا ۔ ہر 150 ارب روپے جمع ہونے کا مطلب ہے کہ جی ڈی پی کے فیصد کے طور پر مالی خسارے میں 12 بی پی ایس کی کمی واقع ہوتی ہے۔

اس سے مالی سال 25 کے خسارے کے ہدف میں ممکنہ طور پر نمایاں بہتری آئی ہے۔ سال 2025 کے لئے نئے ٹیکس نظام کے نفاذ کے ساتھ ، خسارے کا ہدف ممکنہ طور پر 5.9فیصد سے 5.4فیصد تک گر سکتا ہے - صرف اس اقدام کی وجہ سے 9 فیصد کی قابل ذکر بہتری ہوگی۔

بروکریج ہاؤس نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے دی گئی سخت ٹائم فریم اور ممکنہ انتظامی رکاوٹوں سے عمل درآمد میں ممکنہ تاخیر کے بارے میں خدشات پیدا ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سخت ڈیڈ لائن کے علاوہ تمام زرعی پروڈیوسرز پر ٹیکس جمع کرنے کا مکمل نظام نافذ کرنا تشویش کا باعث ہے ۔ زرعی شعبے کے کچھ حصوں کی جانب سے چیلنجز اور ممکنہ مزاحمت پیدا ہوسکتی ہے۔

اس کے نتیجے میں ایک غیر متوقع نتیجہ نکل سکتا ہے : غیر دستاویزی معیشت کی توسیع . نئے ٹیکس نظام کے کامیاب نفاذ کو یقینی بنانے کے لئے ان ممکنہ مسائل کو حل کرنا اہم ہوگا۔

Comments

200 حروف