دنیا

غزہ پر تباہ کن حملے، جنگ دسویں ماہ میں داخل

  • غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کیلئے اقوام متحدہ کے ادارے کے زیر انتظام چلنے والے ایک اسکول پر اسرائیلی حملے میں 16 افراد شہید ہوئے ہیں۔
شائع July 7, 2024

اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں تباہ کن فضائی حملے کیے ہیں جبکہ یہ تنازعہ اتوار کو اپنے دسویں مہینے میں داخل ہو گیا ہے، فلسطینی علاقے میں لڑائی جاری ہے اور تشدد کو روکنے کے لیے تازہ سفارتی کوششیں بھی جاری ہیں۔

اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ دوحہ میں حال ہی میں شروع ہونے والے قطری ثالثوں کے ساتھ جنگ بندی کے مذاکرات جاری رکھنے کے لئے آنے والے دنوں میں ایک وفد بھیجے گا۔

تاہم اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ترجمان کا کہنا ہے کہ حماس کے ساتھ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے حوالے سے ’اختلاف‘ برقرار ہے۔

ترجمان نے جمعے کے روز ایک بیان میں کہا کہ اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ اگلے ہفتے اسرائیلی مذاکرات کار مذاکرات جاری رکھنے کے لیے دوحہ جائیں گے۔ فریقین کے درمیان اب بھی خلا موجود ہے۔

دریں اثناء غزہ میں لڑائی بلا روک ٹوک جاری ہے اور فلسطینی ہلال احمر نے اتوار کے روز کہا ہے کہ اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والے دو بچوں سمیت چھ افراد کی لاشیں وسطی شہر دیر البلاح میں الاقصیٰ شہداء اسپتال لائی گئی ہیں۔

پیرامیڈکس نے اتوار کے روز یہ بھی بتایا کہ غزہ شہر کے شمالی علاقے میں ایک گھر پر اسرائیلی حملے میں چھ افراد شہید ہوئے ہیں۔

اس سے ایک روز قبل حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت نے کہا تھا کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے فلسطینی پناہ گزین (یو این آر ڈبلیو اے) کے زیر انتظام چلنے والے ایک اسکول پر حملے میں 16 افراد شہید ہوئے ہیں۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس کے طیاروں نے الجونی اسکول کے ارد گرد سرگرم ’دہشت گردوں‘ کو نشانہ بنایا۔

اس سے قبل فوج نے کہا تھا کہ اس نے غزہ کی پٹی کے زیادہ تر حصوں میں کارروائیاں کی ہیں، جن میں شمال میں شجاعیہ، جنوب میں دیر البلاح اور رفح شامل ہیں۔

شجاعیہ ان علاقوں میں شامل ہے جنہیں فوج نے پہلے حماس سے پاک کرنے کا اعلان کیا تھا، لیکن اس کے بعد لڑائی دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔

 ۔
۔

حماس کے پریس آفس اور پیرامیڈکس کا کہنا ہے کہ مقامی میڈیا اداروں کے لیے کام کرنے والے چار صحافی ہفتے کی رات ہونے والے حملوں میں مارے گئے جبکہ یو این آر ڈبلیو اے کا کہنا ہے کہ اس کے دو ملازمین ہلاک ہوئے ہیں۔

یو این آر ڈبلیو اے، جو غزہ کو فراہم کی جانے والی زیادہ تر امداد کا انتظام کرتا ہے، کا کہنا ہے کہ اس کے 194 ملازمین جنگ میں مارے جاچکے ہیں۔

’گیند اسرائیل کے کورٹ میں‘

امریکہ، جس نے قطر اور مصر کے ساتھ جنگ بندی کے مذاکرات میں ثالثی کی ہے، نے معاہدے کے امکانات پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں فریقوں کے لئے ”بہت اہم آغاز“ ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے مئی میں جنگ بندی کے معاہدے کے راستے کا اعلان کیا تھا جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ اسرائیل کی جانب سے تجویز کیا گیا تھا۔

ان میں ابتدائی طور پر چھ ہفتوں کی جنگ بندی، غزہ کے آبادی کے مراکز سے اسرائیل کا انخلا اور فلسطینیوں کے زیر حراست یرغمالیوں کی رہائی شامل ہے۔

بعد ازاں مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے لیکن جمعرات کو ایک امریکی عہدیدار نے کہا کہ حماس کی جانب سے ایک نئی تجویز اس عمل کو آگے بڑھاتی ہے اور معاہدے کو مکمل کرنے کی بنیاد فراہم کر سکتی ہے۔

حماس کے سینئر عہدیدار اسامہ حمدان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ثالثوں کی جانب سے گروپ کے نئے خیالات سے امریکی فریق کو آگاہ کیا گیا تھا جس نے ان کا خیر مقدم کیا اور انہیں اسرائیل کی جانب منتقل کیا۔

’’اب گیند اسرائیلی کورٹ میں ہے۔‘‘

نومبر میں اسرائیلی جیلوں میں قید 240 فلسطینیوں کے بدلے 80 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے کے دوران ایک ہفتے کی جنگ بندی کے بعد سے کوئی جنگ بندی نہیں ہوئی ہے۔

یرغمالیوں کی رہائی کے ایک اور معاہدے کے لیے اندرون ملک دباؤ بڑھ گیا ہے، اسرائیل میں باقاعدگی سے مظاہرے اور ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔

اسرائیلی اعداد و شمار کی بنیاد پر اے ایف پی کے مطابق جنگ کا آغاز 7 اکتوبر کو حماس کے جنوبی اسرائیل پر غیر معمولی حملے سے ہوا جس کے نتیجے میں 1،195 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔

حماس گروپ نے شہریوں کو بھی یرغمال بنا لیا جن میں سے 116 غزہ میں موجود ہیں جن میں سے 42 کے بارے میں فوج کا کہنا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔

حماس کے زیر انتظام علاقے میں وزارت صحت کے مطابق اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ میں فوجی کارروائی کی ہے جس میں کم از کم 38,098 افراد شہید ہوئے ہیں، جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔

اقوام متحدہ کے اداروں کا کہنا ہے کہ جنگ نے غزہ کی 90 فیصد آبادی کو بے گھر کر دیا ہے، اس کے زیادہ تر مکانات اور دیگر بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے، اور تقریبا 500،000 افراد کو ”تباہ کن“ بھوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

جنگ بندی معاہدے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ حماس کی جانب سے لڑائی کے مستقل خاتمے کا مطالبہ ہے جسے نیتن یاہو اور ان کے انتہائی دائیں بازو کے اتحادی سختی سے مسترد کرتے ہیں۔

انہوں نے یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا اور اصرار کیا کہ جنگ اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک اسرائیل حماس کی لڑنے یا حکومت کرنے کی صلاحیت کو ختم نہیں کر دیتا۔

لبنان پر حملے

غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل اور لبنان کی ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ تحریک کے درمیان تقریبا روزانہ سرحد پار فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا ہے لیکن گزشتہ ایک ماہ کے دوران حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

اس سے بدترین دشمنوں کے درمیان ایک بڑے تصادم کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے جو ایران سمیت دوسرے ممالک کو جنگ کی طرف کھینچ سکتا ہے۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس کے لڑاکا طیاروں نے جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور فوجیوں نے ’دن بھر‘ سرحد پار توپ خانے سے فائرنگ کی۔

 ۔
۔

اس سے قبل ہفتے کے روز شمالی اسرائیل میں سائرن بج رہے تھے اور فوج نے کہا تھا کہ اس نے ’مشکوک فضائی ہدف‘ کو مار گرایا ہے اور لبنان کی جانب سے داغے گئے دو ’دشمن طیارے‘ کھلے میدان میں گرے ہیں۔

حزب اللہ کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ہفتے کے روز مشرقی لبنان میں اسرائیلی ڈرون حملے میں ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں حزب اللہ کا ایک اہلکار مارا گیا۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اس گروپ کے ایئر ڈیفنس یونٹ کا حصہ تھا۔

Comments

200 حروف