جون 2025 تک کے ایس ای 100 انڈیکس ایک لاکھ 9 ہزار پوائنٹس کی سطح تک پہنچ جائے گا، عارف حبیب لمیٹیڈ
بروکریج ہاؤس عارف حبیب لمیٹڈ (اے ایچ ایل) کی جانب سے ’اسٹریٹجی‘ پیپر کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ نئے طویل اور بڑے پروگرام کے حوالے سے پر امیدی اور بہتر معاشی اشاریوں کی بدولت پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) کا بینچ مارک کے ایس ای 100 انڈیکس جون 2025 تک ایک لاکھ 9 ہزار پوائنٹس کی سطح پر پہنچنے کی توقع ہے۔
جمعرات کو جاری ہونے والی اے ایچ ایل کی رپورٹ ’مالی سال 25 میں پاکستان کی حکمت عملی: انٹو دی سینچری زون‘ کے مطابق کے ایس ای 100 انڈیکس جون 2025 تک 109,250 پوائنٹس کی بلند سطح پر بد ہونے کی توقع ہے جو مالی سال 25 میں 36 فیصد منافع ظاہر کرتا ہے۔
آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) پروگرام کے ممکنہ مذاکرات، شرح سود میں کمی کے رحجان اور اور سرمایہ کاری میں فکسڈ انکم سے ایکویٹیز کی طرف منتقلی کی بدولت انڈیکس میں اضافہ ہوا ہے۔ بروکریج ہاؤس نے کہا کہ توقع ہے کہ انڈیکس کی دوبارہ درجہ بندی ہوگی۔
پی ایس ایکس میں حالیہ ہفتوں کے دوران خریداری کا سلسلہ جاری ہے اور بینچ مارک کے ایس ای 100 جمعرات کو 49.13 پوائنٹس یا 0.06 فیصد اضافے کے ساتھ 80,282.80 کی ریکارڈ بلند ترین سطح پر بند ہوا۔
12 جون کو بجٹ پیش کیے جانے کے بعد سے انڈیکس میں 10 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکج حاصل کرنے کی مسلسل امید ہے تاکہ مشکلات کا شکار پاکستان کی معیشت کو تقویت ملے۔
اے ایچ ایل نے کہا کہ مالی سال 25 میں مقامی اسٹاک مارکیٹ میں مزید توجہ ملنے کی توقع ہے کیونکہ کے ایس ای 100 انڈیکس مالی سال 24 میں 94 فیصد کے ٹھوس منافع کے ساتھ دنیا کی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی مارکیٹ ثابت ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ کے ایس ای 100 انڈیکس ایم ایس سی آئی فرنٹیئر مارکیٹس اسپیس میں دوسری سب سے زیادہ لکویڈ مارکیٹ ہے جس کی اوسط یومیہ ٹریڈنگ ویلیو مالی سال 24 میں 55 ملین امریکی ڈالر تھی۔ مزید برآں انڈیکس 12.1 گنا کے علاقائی مارکیٹ اوسط کے مقابلے میں 4.2 گنا کے پرائس ٹو ارننگ (پی / ای) کے تناسب کے لحاظ سے سب سے سستی مارکیٹ میں سے ایک ہے، جبکہ پرائس ٹو بک (پی / بی) کی شرح 0.8 فیصد کے لحاظ سے بھی پرکشش ہے جبکہ علاقائی پی / بی اوسط 1.6 گنا ہے۔
اپنی رپورٹ میں اے ایچ ایل نے زرعی پیداوار میں بہتری، صنعتی پیداوار اور خدمات کے شعبے کی نمو کی وجہ سے مالی سال 24 میں 2.38 فیصد کے مقابلے میں مالی سال 25 میں پاکستان کی جی ڈی پی میں 3.2 فیصد اضافے کی توقع ظاہر کی۔
اے ایچ ایل نے اپنی رپورٹ میں توقع ظاہر کی ہے کہ مالی سال 25 میں پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح 3.2 فیصد ہوگی جو مالی سال 24 میں 2.38 فیصد تھی۔
بروکریج ہاؤس نے کہا کہ پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ ایک نئے تین/چار سالہ ای ایف ایف پروگرام میں داخل ہونے کی توقع رکھتا ہے جس کی رقم ممکنہ طور پر 6 سے 8 بلین ڈالر ہوگی اور اس سے اگلے 3 سالوں کے لیے ادائیگیوں میں توازن پیدا ہوگا۔
پاکستان نے اپریل میں 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) پروگرام کو مکمل کرنے کے فورا بعد آئی ایم ایف حکام کے ساتھ نئے قرض کے بارے میں بات چیت شروع کی، ایس بی اے سے پاکستان کو گزشتہ سال خود شدید قرضوں کے ڈیفالٹ سے بچنے میں مدد ملی۔ بین الاقوامی قرض دینے والے ادارے نے نئی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے مئی میں اپنا وفد پاکستان بھیجا تھا۔
حکومت اس ماہ (جولائی) بیل آؤٹ پروگرام حاصل کرنے کے لئے پراعتماد ہے۔
دریں اثناء اے ایچ ایل نے اپنی رپورٹ میں توقع ظاہر کی ہے کہ مالی سال 25 میں پاکستان میں افراط زر کی شرح اوسطا 10.7 فیصد رہے گی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غذائی افراط زر پر قابو پایا جائے اور سالانہ افراط زر کو کم رکھنے کے لیے ایک اونچی بنیاد رکھی جائے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افراط زر میں کمی کے پیش نظر اسٹیٹ بینک جون 25 کے آخر تک پالیسی ریٹ کو مزید کم کرکے 13.5 فیصد کر دے گا۔
جبکہ مالی سال 25 کے لئے پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ (سی اے ڈی) 2.6 بلین ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے کیونکہ درآمدات کی وجہ سے طلب میں اضافہ ہوا ہے۔
تاہم مالی سال 25 میں ملک کا تجارتی خسارہ 27.7 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے جس کی بڑی وجہ بڑھتی ہوئی مجموعی طلب کے درمیان درآمدات میں متوقع اضافہ ہے۔
بروکریج ہاؤس کو توقع ہے کہ مالی سال 25 میں پاکستان میں ترسیلات زر کی آمد 30.6 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی جو سالانہ بنیاد پر 4 فیصد ہوگی کیونکہ اسے مستقبل میں نمایاں کمی کی توقع نہیں ہے۔
بیرونی محاذ پر اے ایچ ایل نے پیش گوئی کی ہے کہ مالی سال 25 میں پاکستان کی مجموعی مالی ضروریات تقریبا 21 بلین ڈالر ہوں گی جو جی ڈی پی کا 5.5 فیصد ہوگا۔
ایکسچینج ریٹ کے حوالے سے بروکریج ہاؤس کو توقع روپے کی قدر اوسطا 289.5 روپے فی امریکی ڈالر رہے گی۔ پاکستانی روپے کے استحکام کو یقینی بنانے کے لئے بروقت ترسیلات اور سی اے ڈی کا انتظام کرنا ہوگا۔
Comments