حکومت نے پاکستان اسٹیل ملز (پی ایس ایم) کو مستقل طور پر بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو 2009 سے بھاری خسارے کا شکار ہے ۔

یہ بات وزارت صنعت و پیداوار کے وفاقی سیکرٹری ڈاکٹر فخر عالم عرفان نے سینیٹر عون عباس کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے کہی۔

ڈاکٹر عرفان نے کہا کہ سندھ حکومت کو پیشکش کی گئی ہے کہ وہ پاکستان اسٹیل ملز کی کل 18 ہزار ایکڑ زمین میں سے 700 ایکڑ زمین کا کنٹرول حاصل کرے اور اس سائٹ پر اپنا اسٹیل پلانٹ لگائے۔

سیکرٹری صنعت و پیداوار نے کمیٹی کو مزید بتایا کہ نگران حکومت نے پی ایس ایم کی نجکاری کے حوالے سے کچھ ترامیم کی ہیں۔

مارکیٹ میں ابھی تک پی ایس ایم کا کوئی خریدار نہیں ہے، حکومت اسے ختم کرنے اور زمین کو دیگر مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر غور کر رہی ہے ،وفاقی کابینہ نے بھی اس کی منظوری دے دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ایس ایم کی زمین وفاقی حکومت یا سندھ حکومت کی ملکیت ہے اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

ڈاکٹرعرفان کا کہنا تھا کہ پی ایس ایم کی زمین سرکاری زمین کے طور پر حاصل کی گئی تھی ، دیگر مقاصد کے لیے زمین استعمال کرنے کے لیے صوبائی حکومت کی اجازت درکار ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے پی ایس ایم کی زمین ایکسپورٹ پروموشن زون/انڈسٹریل زونز کے قیام کیلئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نگران صوبائی حکومت نے نگران وفاقی حکومت کو زمین استعمال کرنے کی اجازت دی تھی لیکن موجودہ صوبائی حکومت نے نگران حکومت کے فیصلے پر نظرثانی کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت 700 ایکڑ رقبے پر نئی اسٹیل مل قائم کرے گی جبکہ باقی زمین پی ایس ایم کی ملکیت رہے گی۔ وزارت صنعت و پیداوار اس حوالے سے سندھ کابینہ کے فیصلے کا انتظار کررہی ہے۔ چیئرمین کمیٹی کے ایک سوال کے جواب میں سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ کہا گیا تھا کہ اعلیٰ معیار کا لوہا سی کیٹیگری کے طور پر فروخت کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ ناکام رہی۔

کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے پی ایس ایم یونین کے نمائندے نے کمیٹی سے درخواست کی کہ پی ایس ایم کے ملازمین جاننا چاہتے ہیں کہ آیا وہ 12 فیصد کے حقدار ہیں یا نہیں اور کیا پی ایس ایم کو بحال کیا جاسکتا ہے یا نہیں ۔ انہوں نے پی ایس ایم حکام کی جانب سے کمیٹی کو فراہم کردہ اعداد و شمار کو بھی چیلنج کیا اور کہا کہ یہ اعداد و شمار غلط ہیں اور پی ایس ایم کی زمین ایکسپورٹ پروموشن زون کے لیے استعمال نہیں کی جاسکتی۔

قائمہ کمیٹی نے انہیں آئندہ اجلاس میں تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ سینیٹر سیف اللہ خان نیازی نے پی ایس ایم کے ریگولر چیف ایگزیکٹو آفیسر کی عدم تعیناتی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت جلد از جلد پی ایس ایم کے مستقل سی ای او کا تقرر کرے۔

چیئرمین کمیٹی نے استفسار کیا کہ اس ادارے کے بورڈ آف گورنرز کی کیا حیثیت ہے؟ بورڈ ممبران کی مکمل تفصیلات آئندہ اجلاس میں فراہم کی جائیں۔

چیئرمین کمیٹی اور دیگر اراکین نے وفاقی وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین کی غیر حاضری پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی کمیٹیاں پارلیمنٹ کا اہم حصہ ہیں اور وفاقی وزراء کمیٹیوں میں اپنی موجودگی کو یقینی بنائیں۔

کمیٹی ممبران نے کہا کہ وزراء کی موجودگی سے پینل کو کسی نتیجے پر پہنچنے، فیصلے کرنے اور عمل درآمد کو یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے۔ سینیٹر دوست علی جیسر نے کہا کہ اسٹیل ملز کی گیس بند نہ کی جائے ورنہ پلانٹ چلانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے پی ایس ایم کے چیف فنانشل آفیسر (سی ایف او) عارف شیخ نے دعویٰ کیا کہ وفاقی حکومت نے پی ایس ایم کی ناقص کارکردگی اور مالی نقصانات کی وجہ سے اسے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

1974 میں قائم ہونے والی یہ مل گزشتہ ایک دہائی سے مالی مشکلات کا سامنا کر رہی ہے ۔ سی ایف او نے دعویٰ کیا کہ پی ایس ایم ملازمین کی سالانہ تنخواہوں کا حجم 3.1 ارب روپے ہے اور گزشتہ 10 سال میں حکومت نے تنخواہوں کی مد میں 32 ارب روپے ادا کیے ہیں۔عارف شیخ نے کہا کہ اس کے علاوہ مل نے گزشتہ ایک دہائی میں 7 ارب روپے کی گیس استعمال کی ہے، انہوں نے سرکاری ملکیت کے ادارے کے ڈوبنے کا ذمہ دار سیاسی طور پر متاثر بھرتیوں اور مستقل عملے کو قرار دیا۔

سی ایف او نے مزید کہا کہ 2010 میں حکومت نے 4500 یومیہ اجرت پر کام کرنے والے ملازمین کی خدمات کو ریگولرائز کرنے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں 12 ارب روپے کی اضافی لاگت آئی۔ انہوں نے کہا کہ 2010 میں پی ایس ایم انتظامیہ نے وفاقی حکومت کو مالی مشکلات سے آگاہ کیا تھا لیکن اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت نے پی ایس ایم انتظامیہ کو خاطر خواہ فنڈز فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔

انہوں نے کہا کہ 2008 تک مل 80 فیصد صلاحیت پر کام کر رہی تھی لیکن 2008 میں عالمی کساد نے دنیا بھر میں اسٹیل انڈسٹری کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کے نتیجے میں پی ایس ایم بھی متاثر ہوا۔ مزید برآں، 2008 میں، پی ایس ایم کے ملازمین کی کل تعداد 27،000 تھی جو 2008 کے بعد گھٹ کر 20،000 رہ گئی لیکن اب بھی 13،000 ملازمین ہیں جب کہ ضرورت 7ہزار کی ہے۔

قبل ازیں وزارت صنعت و پیداوار نے پی ایس ایم کے حکام کو اسٹیل پلانٹ کو گیس کی فراہمی بند کرنے کی ہدایت کی تھی جس سے پی ایس ایم کی بحالی کی کوششیں ناکام ہو گئیں۔

وزارت صنعت و پیداوار کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق پی ایس ایم کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کو پاکستان اسٹیل پلانٹ کو گیس کی فراہمی روکنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

سرکلر میں کہا گیا کہ پاکستان اسٹیل کے پلانٹس کے اہم حصوں بشمول بلاسٹ فرنسز کو گیس کی فراہمی جون 2015 سے محدود تھی ۔ پاکستان اسٹیل نے 30 جون 2023 تک 22.4 ارب روپے کے نقصانات کا تخمینہ لگایا تھا جبکہ گیس کے واجبات 33.5 ارب روپے تک پہنچ گئے تھے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ آڈٹ 2021 ء تک پی ایس ایم کے اثاثوں کی کل مالیت 861 ارب روپے تھی جس میں 2 ارب 12 کروڑ روپے کے قابل منتقل اثاثے اور 858 ارب روپے کے غیر منقولہ اثاثے شامل ہیں جن میں سے زمین کی مجموعی قیمت 622 ارب روپے ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ایس ایم کے کل واجبات 335 ارب روپے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 10 سال میں 138 ارب روپے کا قرضہ حاصل کیا اور 103 ارب روپے سود کی مد میں ادا کیے۔

کاپی رائٹ بزنس ریکارڈر، 2024

Comments

200 حروف