دنیا

شمالی غزہ میں لڑائی تیسرے روز بھی جاری، ہزاروں افراد بے گھر

  • حماس کے زیر انتظام غزہ میں وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل کے حملے میں کم از کم 37,834 افراد شہید ہوئے ہیں
شائع June 29, 2024

اسرائیلی فوج کے حملے کے تیسرے روز ہفتے کو شمالی غزہ میں دھماکوں، فضائی حملوں اور فائرنگ نے پورے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی بے گھر ہو گئے اور اقوام متحدہ کے مطابق علاقے میں ’ناقابل برداشت‘ حالات زندگی مزید خراب ہوگئے ہیں۔

اے ایف پی کے نامہ نگار نے غزہ شہر کے قریب شجاعیہ کے علاقے سے جاری دھماکوں کی اطلاع دی ہے، ایک رہائشی کا کہنا ہے کہ سڑکوں پر لاشیں دکھائی دے رہی ہیں۔

اسرائیلی فوج نے ہفتے کے روز کہا تھا کہ اس کی کارروائیاں شجاعیہ میں جاری ہیں جہاں ’زمین کے اوپر اور نیچے‘ لڑائی میں ’بڑی تعداد میں‘ جنگجو ہلاک ہوئے ہیں۔

اسرائیل کی جانب سے شمالی غزہ میں حماس کے کمانڈ ڈھانچے کو ختم کرنے کے اعلان کے چند ماہ بعد علاقے میں لڑائی دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔

گذشتہ اتوار کو اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ جنگ کا ’شدید مرحلہ‘ تقریبا نو ماہ بعد ختم ہو رہا ہے، لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ اگلا مرحلہ ممکنہ طور پر طویل ہو جائے گا۔

غزہ جنگ کی وجہ سے لبنان کے ساتھ اسرائیل کی شمالی سرحد پر بھی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے ایران نے ہفتے کے روز متنبہ کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا تو جنگ شروع ہو جائے گی۔

اسرائیلی اعداد و شمار کی بنیاد پر اے ایف پی کے مطابق جنگ کا آغاز 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے سے ہوا جس کے نتیجے میں 1،195 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔

فلسطینی گروپ نے لوگوں کو بھی یرغمال بنا لیا جن میں سے 116 غزہ میں موجود ہیں حالانکہ فوج کا کہنا ہے کہ 42 ہلاک ہو چکے ہیں۔

حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل کے حملے میں کم از کم 37,834 افراد شہید ہوئے ہیں، جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔ گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران کم از کم 69 اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔

خالی ہاتھ فرار

30 سالہ محمد ہرارا نے بتایا کہ انہیں اور ان کی فیملی، جوان اور بوڑھوں کو ایسا لگا جیسے وہ اس کا حصہ بن جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ شجاعیہ میں اپنے گھر سے کچھ لئے بغیر فرار ہو گئے تھے کیونکہ اسرائیلی طیاروں، ٹینکوں اور ڈرونز کی بمباری کی وجہ سے وہ بمشکل بچ پائے تھے۔

ہرارا نے بتایا کہ ’’ہم گھر سے کچھ بھی نہیں لے جا سکتے تھے۔ ہم نے کھانا، آٹا، ڈبہ بند سامان، گدے اور کمبل چھوڑ دیے،‘‘ ۔

اسرائیلی فوج نے جمعے کے روز کہا تھا کہ وہ شجاعیہ کے علاقے میں حماس کے خلاف فضائی حملوں کی مدد سے ’ٹارگٹڈ حملے‘ کر رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے او سی ایچ اے کا اندازہ ہے کہ اس ہفتے اس علاقے سے ”تقریبا 60،000 سے 80،000 افراد بے گھر ہوئے ہیں“۔

اے ایف پی ٹی وی کی ہفتے کے روز لی گئی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ گدھے کی گاڑی پر سامان لے کر جا رہے ہیں۔ کچھ لوگ وہیل چیئر پر موجود ہیں۔ بچے بیگ کے ساتھ گرد آلود ملبے کے ڈھیر سے گزر رہے تھے۔

عبدالکریم المملوک نے کہا کہ ”میں نے شہداء مسجد کے سامنے ایک ٹینک کو فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا“۔ ’’گلی میں شہید تھے۔‘‘

جمعے کے روز حماس اور فلسطینی گروپ اسلامک جہاد کے مسلح ونگ دونوں نے کہا تھا کہ وہ شجاعیہ میں لڑ رہے ہیں۔

ساحلی علاقے میں شہری دفاع کے ادارے نے ہفتے کے روز بتایا کہ وسطی علاقے میں اسرائیلی حملے کے بعد ایک اپارٹمنٹ سے چار لاشیں نکالی گئی ہیں۔

مزید جنوب میں رفح کے علاقے میں عینی شاہدین نے اسرائیلی فوجیوں کے ایک نئے حملے کے بعد ہلاک اور زخمی ہونے کی اطلاع دی ہے۔

وسطی غزہ کے المغازی میں طبی مرکز کے ڈائریکٹر طارق قندیل نے کہا کہ پڑوسی گھر پر بمباری کے نتیجے میں اسپتال کو شدید نقصان پہنچا ہے جس کی وجہ سے یہ جنگ سے متاثر ہونے والا غزہ کا تازہ ترین طبی مرکز بن گیا ہے۔

اقوام متحدہ نے جمعے کے روز ایک رپورٹ میں غزہ کی وزارت صحت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’صحت کے تقریبا 70 فیصد بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا گیا ہے۔‘

باتھ روم نہیں ہیں

دوسری جانب اقوام متحدہ کی ترجمان لوئس واٹرج نے ویڈیو لنک کے ذریعے بتایا کہ وہ غزہ سے چار ہفتے باہر رہنے کے بعد وسطی غزہ واپس آئی ہیں۔

انہوں نے ایک ’نمایاں طور پر خراب‘ صورت حال کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا، “یہ واقعی ناقابل برداشت ہے۔

’’وہاں پانی نہیں ہے، صفائی ستھرائی نہیں ہے، کھانا نہیں ہے،‘‘ اور لوگ عمارتوں کے ’’خالی خول‘‘ میں رہنے کے لیے لوٹ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ باتھ روم کی عدم موجودگی میں وہ ”جہاں بھی ممکن ہو فارغ ہورہے ہیں“۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ کی زیادہ تر آبادی بے گھر ہو چکی ہے، لیکن جنگ کے نتیجے میں اسرائیل اور لبنان کی سرحد کے دونوں طرف کے لوگ بھی بے گھر ہو گئے ہیں، جہاں لبنان کی حزب اللہ تحریک اور اسرائیلی افواج کے درمیان تقریبا روزانہ فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا ہے۔

اس مہینے اس طرح کے تبادلوں میں اضافہ ہوا ہے اور ساتھ ہی دونوں طرف سے اشتعال انگیز بیانات بھی سامنے آئے ہیں۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ لبنان پر حملے کے منصوبوں کی منظوری دے دی گئی ہے جس کے بعد حزب اللہ نے جواب دیا ہے کہ مکمل جنگ میں اسرائیل میں کسی کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا۔

’نفسیاتی جنگ‘

نیویارک میں اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے ہفتے کے روز سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا کہ وہ لبنان پر حملے کی اسرائیلی دھمکیوں کو نفسیاتی جنگ سمجھتے ہیں۔

تاہم خطے میں ایران کے حمایت یافتہ گروہوں کا حوالہ دیتے ہوئے اس میں مزید کہا گیا ہے کہ اس طرح کے اقدام سے ایک ”تباہ کن“ جنگ شروع ہوگی جس میں ”تمام مزاحمتی محاذ“ شامل ہوسکتے ہیں۔

ان میں یمن کے حوثی باغی بھی شامل ہیں جو کئی ماہ سے بحیرہ احمر کے علاقے میں بین الاقوامی جہاز رانی کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ باغیوں کا کہنا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔

جمعے کے روز حوثی باغیوں نے بحیرہ احمر میں ایک ٹینکر پر براہ راست حملہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا تاہم برطانیہ کی رائل نیوی کے زیر انتظام میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی نے کسی نقصان کی اطلاع نہیں دی۔

امریکی بحریہ نے ایسے حملوں پر حوثیوں کے ٹھکانوں کے خلاف جوابی کارروائی کی ہے اور جمعے کے روز امریکی فوج نے کہا تھا کہ اس کی افواج نے گزشتہ روز یمن کے حوثیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں سات ڈرون اور ایک کنٹرول اسٹیشن گاڑی کو تباہ کیا ہے۔

Comments

200 حروف