وکی لیکس کا کہنا ہے کہ جولین اسانج کو پیر کے روز جیل سے رہا کر دیا گیا ہے اور وہ برطانیہ سے چلے گئے ہیں کیونکہ انہوں نے امریکی حکام کے ساتھ ایک تاریخی معاہدہ کیا ہے جس کے بعد ان کے سالہا سال سے جاری قانونی جنگ کا خاتمہ ہو گیا ہے۔

وکی لیکس نے اپنے بانی جولین اسانج کے بارے میں لکھا کہ ’جولین اسانج آزاد ہیں‘ جنہیں پانچ سال تک برطانیہ میں حراست میں رکھا گیا تھا کیونکہ وہ امریکہ کے حوالے کیے جانے کے خلاف قانونی جنگ لڑ رہے تھے۔

بحرالکاہل کے شمالی ماریانا جزائر کی عدالت میں جمع کرائی گئی ایک دستاویز کے مطابق وہ قومی دفاع کی معلومات حاصل کرنے اور پھیلانے کی سازش کے ایک الزام کا اعتراف کرنے پر راضی ہو گئے ہیں۔

جولین اسانج کو مقامی وقت کے مطابق بدھ کی صبح امریکی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

توقع کی جا رہی ہے کہ انھیں 62 ماہ قید کی سزا سنائی جائے گی، جو اصل میں وہ پانچ سال ہیں جو انہوں نے برطانیہ کی جیل میں گزارے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے آبائی ملک آسٹریلیا واپس جا سکتے ہیں۔

52 سالہ پبلشر 2010 سے وکی لیکس نامی ویب سائٹ کے سربراہ کی حیثیت سے ہزاروں خفیہ امریکی دستاویزات شائع کرنے کے الزام میں واشنگٹن کو مطلوب تھے۔

اس مہم کے دوران اسانج دنیا بھر میں آزادی اظہار رائے کی مہم چلانے والوں کے لیے ہیرو اور ان لوگوں کے لیے ولن بن گئے جو یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے راز افشا کر کے امریکی قومی سلامتی اور انٹیلی جنس ذرائع کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

امریکی حکام اسانج پر عراق اور افغانستان کی جنگوں کے بارے میں امریکی فوجی راز افشا کرنے پر مقدمہ چلانا چاہتے تھے۔

یہ پلی بارگین معاہدہ ممکنہ طور پر اسانج کی تقریبا 14 سالہ قانونی جنگ ختم کر دے گا۔

اسانج پر 2019 میں امریکی فیڈرل گرینڈ جیوری نے وکی لیکس کی جانب سے قومی سلامتی سے متعلق دستاویزات کی اشاعت سے متعلق 18 الزامات میں فرد جرم عائد کی تھی۔

حوالگی کی لڑائی

وکی لیکس نے ایک مختصر ویڈیو جاری کی ہے جس میں اسانج ایک دفتر میں لوگوں سے بات کر رہے ہیں اور پھر ہوائی جہاز میں سوار ہو رہے ہیں۔

اس معاہدے کا اعلان ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب اسانج کو امریکہ کے حوالے کرنے کی منظوری دینے والے فیصلے کے خلاف برطانیہ کی عدالت میں پیش ہونا تھا۔

اسانج اپریل 2019 سے لندن کی انتہائی سکیورٹی والی بیلمارش جیل میں قید تھے۔

انہیں سویڈن کی حوالگی سے بچنے کے لیے ایکواڈور کے لندن سفارت خانے میں سات سال قید رہنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جہاں انہیں جنسی استحصال کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا، جو بالآخر واپس لے لیے گئے تھے۔

انہوں نے جو مواد جاری کیا ہے اس میں 2007 میں عراق میں ایک امریکی ہیلی کاپٹر گن شپ کی فائرنگ سے عام شہریوں کو ہلاک کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

ہلاک ہونے والوں میں رائٹرز کے دو صحافی بھی شامل ہیں۔

امریکہ نے اسانج پر 1917 کے جاسوسی ایکٹ کے تحت الزام عائد کیا ہے۔ ان کے حامیوں نے متنبہ کیا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ انھیں 175 سال قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔

برطانوی حکومت نے جون 2022 میں اس کی حوالگی کی منظوری دی تھی۔

اس کہانی میں تازہ ترین موڑ اس وقت آیا جب دو برطانوی ججوں نے مئی میں کہا تھا کہ وہ امریکہ کو اپنی حوالگی کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں۔

یہ اپیل اس سوال کا جواب دینے کے لیے تھی کہ آیا امریکہ میں مقدمے کا سامنا کرنے والے غیر ملکی کی حیثیت سے وہ امریکی آئین میں پہلی ترمیم کے تحت دی گئی آزادی اظہار رائے کے تحفظ سے فائدہ مند ہوں گے۔

فروری میں آسٹریلیا کی حکومت نے اس حوالے سے باضابطہ درخواست کی تھی اور بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ اس پر غور کریں گے جس سے اسانج کے حامیوں میں یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ ان کی آزمائش ختم ہو سکتی ہے۔

آسٹریلوی حکومت کا کہنا ہے کہ اسانج کا کیس طویل عرصے سے چل رہا ہے اور ان کی مسلسل قید سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

آسٹریلیا انسٹی ٹیوٹ تھنک ٹینک کی سینیئر محقق ایما شارٹس نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ کینبرا اور واشنگٹن دونوں اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

Comments

200 حروف