دنیا

اسرائیلی فوج کا رفح پر حملہ، کیمپوں میں موجود 17 فلسطینی شہید

غزہ کی پٹی کے دو تاریخی پناہ گزین کیمپوں میں منگل کے روز اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 17 فلسطینی شہید ہو گئے...
شائع June 18, 2024 اپ ڈیٹ June 19, 2024

غزہ کی پٹی کے دو تاریخی پناہ گزین کیمپوں میں اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 17 فلسطینی شہید ہو گئے اور اسرائیلی ٹینکوں نے غزہ کے جنوبی شہر رفح میں مزید اندرونی علاقوں تک پیش قدمی کی ہے۔

رہائشیوں نے رفح کے کئی علاقوں میں ٹینکوں اور طیاروں سے شدید بمباری کی اطلاع دی، جہاں مئی سے پہلے دس لاکھ سے زیادہ افراد پناہ لیے ہوئے تھے۔

اس شہر پر اسرائیلی فوج کے حملے کے بعد سے زیادہ تر آبادی شمال کی طرف نکل گئی ہے۔

رفح کے رہائشی اور چھ بچوں کے والد نے ایک چیٹ ایپ کے ذریعے روئٹرز کو بتایا کہ ”دنیا کی مداخلت کے بغیر رفح پر بمباری کی جا رہی ہے، قابض (اسرائیل) یہاں آزادانہ کارروائی کر رہا ہے۔“

اسرائیلی ٹینک رفح کے مغرب میں تل السلطان، العزبہ اور زورب کے علاقوں کے ساتھ ساتھ شہر کے وسط میں واقع شبورہ کے اندر آپریشن کر رہے ہیں۔

انہوں نے مشرقی محلوں اور مضافات کے ساتھ ساتھ مصر کے ساتھ سرحد اور اہم رفح سرحدی کراسنگ پر بھی قبضہ کر رکھا ہے۔

 ۔
۔

رہائشی نے بتایا کہ ”زیادہ تر علاقوں میں اسرائیلی فوجیں موجود ہیں، وہاں شدید مزاحمت بھی ہے لیکن یہ قبضہ اخلاقی نہیں ہے اور وہ شہر اور پناہ گزین کیمپ کو تباہ کر رہے ہیں۔“

فلسطینی محکمہ صحت کے حکام نے بتایا کہ صبح کے وقت رفح کے مشرقی حصے پر اسرائیلی فائرنگ سے ایک شخص شہید ہو گیا۔

طبی ماہرین نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ گزشتہ دنوں اور ہفتوں میں بہت سے لوگ مارے گئے ہیں لیکن امدادی ٹیمیں ان تک نہیں پہنچ سکیں۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ رفح میں ”صحیح، انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن“ جاری رکھے ہوئے ہے، جس میں گزشتہ روز چھڑپوں میں بہت سے مسلح فلسطینی مارے گئے اور اسلحہ قبضے میں لے لیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ فضائیہ نے گزشتہ روز غزہ کی پٹی میں درجنوں اہداف کو نشانہ بنایا۔

وسطی غزہ کی پٹی میں، دو گھروں پر دو الگ الگ اسرائیلی فضائی حملوں میں النصیرات اور البوریج میں 17 فلسطینی مارے گئے، یہ دو نامزد پناہ گزین کیمپ ہیں جو 1948 کی جنگ میں وجود میں آئے۔

غزہ سے تعلق رکھنے والے 45 سالہ استاد خلیل نے کہا، ”ہر ایک گھنٹے کی تاخیر سے، اسرائیل مزید لوگوں کو ماررہا ہے، ہم اب جنگ بندی چاہتے ہیں،“ غزہ کے ایک استاد، 45 سالہ خلیل نے کہا، جو اب وسطی غزہ کی پٹی کے دیر البلاح شہر میں اپنے خاندان کے ساتھ بے گھر ہیں۔

 ۔
۔

”ہمارا خون کافی بہہ چکا ہے، میں اسرائیل، امریکہ اور اپنے لیڈروں کو بھی کہتا ہوں۔“

اس میں کہا گیا کہ اسلامی جہاد کے ایک سنائپر سیل کا کمانڈر اسرائیلی جنگی طیارے کے ذریعے مارا گیا، اور فوجیوں نے ایک عسکریت پسند سیل کو بھی ”ختم“ کر دیا۔ حماس اور اسلامی جہاد کے مسلح ونگز نے کہا کہ جنگجوؤں نے جنگی علاقوں میں اسرائیلی افواج کا مقابلہ ٹینک شکن راکٹوں اور مارٹر بموں سے کیا اور کچھ علاقوں میں پہلے سے نصب بارودی مواد کو فوجی یونٹوں کے خلاف دھماکے سے اڑا دیا۔

اسرائیل کی زمینی اور فضائی مہم اس وقت شروع ہوئی جب حماس کی قیادت میں 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں دھاوا بولا گیا، جس میں اسرائیل کے مطابق، تقریباً 1,200 افراد ہلاک اور 250 سے زیادہ یرغمالیوں کو پکڑ لیا گیا۔

اسرائیلی حملے نے غزہ کو کھنڈرات میں بدل دیا ہے، اس کے صحت کے حکام کے مطابق، 37,400 سے زیادہ افراد شہید ہوچکے ہیں، اور زیادہ تر آبادی بے گھر اور بے سہارا ہو گئی ہے۔

 ۔
۔

نومبر میں ایک ہفتہ طویل جنگ بندی کے بعد سے، جنگ بندی کا بندوبست کرنے کی بار بار کوششیں ناکام ہو چکی ہیں، حماس جنگ کے مستقل خاتمے اور غزہ سے مکمل اسرائیلی انخلا پر اصرار کر رہی ہے۔

نیتن یاہو نے حماس کے خاتمے اور یرغمالیوں کی رہائی سے پہلے جنگ ختم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

Comments

200 حروف